ضیاءالحق ابھی زندہ ہے

Spread the love
: تحریر: ” میاں جہانزیب نورپوری “
؎ خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
17 اگست کی تاریخ کیا آتی ہے کہ بھٹو کے پجاری اور بلاول کے خود ساختہ ماموں جو سماجی ابلاغ کے صفحات اپنے آپ کو جمہوریت پسند، ترقی پسند اور سیاسی حرکیات کا عالم ظاہر کرتے ہیں ، عجیب مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سارا دن اپنے اندر کی گندگی کو شہید جنرل محمد ضیاء الحق ؒکے نام پر تھوک کر کے اپنی تسکین کا سامان کرتے ہیں اور ساتھ ہی نوحہ گری بھی کرتے رہتے ہیں کہ جنرل ضیاءؒ تو نہیں رہا لیکن اس کی وراثت خوب پھل پھول رہی ہے ۔اور یہ ہی حال ان کے ہم خیال ملحدوں اورمحرم کے دس دنوں میں حسینئ ہونے کا ڈھونگ رچانے والوں کا ہے ۔ ستم یہ ہے کہ اس نوحہ گری یا کوسنے دینے کی روش کو اگلے ہی لمحے عمران خان کی ذات کی طرف موڑ کر اس کو جنرل ضیاءؒ کاعکس ثابت کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اب کون ان عقل کے اندھوں کو سمجھائے کہ زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے، دوسروں کی خامیوں پر نہیں۔
؎ ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
عمومی طور پر شہید جنرل محمد ضیاء الحق ؒ کے طرف دار ان کے نظریاتی مخالفین کو جواباً ذولفقار بھٹو کی شخصی اور سیاسی
خامیوں کو اجاگر کرکے دیتے ہیں ۔ جس سے دونوں شخصیات متنازعہ ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی آدمی کامل نہیں ہوتا ۔ یہ تحریرکوشش ہے کہ ان افراد کی رائے سے جنرل ضیاءؒ کے مثبت پہلو کو اجاگر کیا جائے جن کا شہید کی ذات سے تعلق ذرا ہٹ کر تھا۔
جنرل ضیاء کے دور میں متوسط اور زیریں طبقہ آج کے عہد کے مقابل زیادہ آسودہ حال تھا۔ اس بات کی گواہی مہر بخاری کے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک مزدور نے اس وقت دی تھی ، جب مہر بخاری کو نہ ابھی کاشف عباسی پر اختیار تھا اور نہ ہی اسے سیاسی معاملات سے کوئی علاقہ تھا۔ رات گئے برلب سڑک بوڑھا مزدور جس نے مزدوری کو اپنے بچپن اور صدر ایوب خان کےعہدمیں اپنایا تھا، اس سے مہر بخاری نے پوچھا تھا کہ آپ نے کس حاکم کے وقت آسائش محسوس کی تھی ۔ تو مزدور نے صاف کہا کہ بندہ مزدور کے اوقات تو ہوتے ہی تلخ ہیں مگر ضیاءالحق صاحب کی حکومت میں زندگی کو سکون حاصل تھا۔ (اگرچہ یہ سن کر مہر کے چہرے پر ناگواری امڈ آئی تھی مگر یہ بات اس نے سارے پروگرام سے حذف نہیں کی تھی)۔ تلاش کے باوجود وہ پروگرام انٹر نیٹ سے بہم نہیں ہوپایا-
اس طرح آج کے برعکس عالمی برادری بالخصوص عالم ِ اسلام میں پاکستان ایک باوقارمقام رکھتا تھا۔ بھارت کے گاندھی حکمران ہمیشہ جنرل ضیاء کی جارحانہ حکمت عملی سے خائف رہے۔اس بات کی گواہی بھرت پور کےجاٹ راجہ سورج مل (فلم پانی پت میں ایک اہم کردار) کی نسل سے ایک معروف ہستی کنور نٹورسنگھ( پاکستان میں بھارتی سفیر اور سابق بھارتی وزیر خارجہ) نے اپنی کتابوں
1. ون لائف از ناٹ انف (خود نوشت: بس ایک زندگی )
2. واکنگ ود لائنز، ٹیلز فرام ڈپلومیٹک پاسٹ (باگھوں کی ہمراہی ، سفارت کے دنوں کے قصے )
اور یوٹیوب پر موجود متعدد انٹرویوز میں دی ہے ۔
کنور صاحب کے مطابق شہید جنرل محمد ضیاء الحق ؒ کی بڑی خواہش پاکستان کو سب سے اہم اسلامی ملک بنتا دیکھنا تھا۔ مگر جنرل صاحب کراچی کے امراء اور پنجاب کے بالائی طبقے کو متاثر نہ کرسکے۔ کیونکہ ان طبقات کی زندگی کا ایک اہم جزو مےخواری تھی۔ کنورنٹور سنگھ اپنے ایک حالیہ انٹرویومیں کہتے ہیں کہ جنرل محمد ضیاء الحق سیاسی اعتبار سے بھارت کے سخت مخالف تھے لیکن ان جیسی تہذیب میں نے کسی میں نہیں دیکھی۔مجھے ہمیشہ ہر ملاقات کے بعد گاڑی تک خود چھوڑنے آتے تھے۔ کوئی بھی ہو ہِی ٹریٹڈ ہم ود گریٹ کرٹسی ۔
اس طرح جنرل ضیاء الحق کی شاطر دماغی کے متعلق ایک واقعہ جو ان کی کتاب میں بھی موجود ہے اسے اپنے انٹرویو میں مزیدار اندازبیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ لکشمی پردیپ سنگھ پوری (جن کے شریک حیات آج کل مودی سرکار میں وزیر ہیں)، بطور انڈر سیکرٹری خارجہ سکھ زائرین کےساتھ ننکانہ صاحب آئی ہوئی تھیں۔ اور اس سکھ جتھے کی جنرل صاحب کے ساتھ ملاقات طے تھی مگر پاکستان کی طرف سے بھارتی خاتون افسر کی ملاقات میں موجودگی کو غیر مناسب کہا گیا۔ لیکن کنور نٹور سنگھ ، لکشمی پوری کو ملاقات میں اپنے ساتھ لے گئے۔ اور ایوان صدر کے لان میںسکھ جتھے کے ساتھ اپنے مقابل بٹھا لیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=5D88ag_vsMs&t=252s
نٹور سنگھ کہتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ “کنور صاحب” کہنے والے جنرل ضیاء مجھے “مسڑ ایمبیسڈر “کہہ کر بیگانہ وار مخاطب ہوئے اور تمام ملاقات میں خاتون افسر کو نظرانداز رکھا۔ کچھ دیر بعد ایک اے ڈی سی ہماری طرف بڑھتا ہوا نظر آیا ، میں سمجھا کہ یہ لکشمی پوری کو تقریب بدر کرے گا۔ اور اگر ایسا ہوا تو میں بھی پھر تقریب چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ مگر اسی دوران بیگم ضیاءالحق لان کے آخر میں نمودار ہوئی اور ان کی جانب سے لکشمی پردیپ سنگھ پوری کو چائےکی دعوت دی گئی۔ اس طرح میں نے اپنے تئیںاپنا کام کر دکھایا مگر جنرل صاحب نے اپنے حساب سے بازی مار لی۔
https://www.youtube.com/watch?v=_YO7XIglhUg
اسی طرح پاکستان کے معروف سفارتکار ریاض کھوکھر نے اپنے ایک انٹرویو میں اپنی بنگلہ دیش میں تعیناتی کے دوران شہید جنرل محمد ضیاء الحق کی ان کوششوں کو بیان کیا جو بنگلہ دیش کو ایک بھارتی زیر تسلط کالونی کے مقام سے ایک خود مختار ملک کی حیثیت حاصل کرنے میں مددگار ہوئی۔ 1981 میں رامتنو میترا کے ایک مضمون ” پاکستان ٹو ری ٹیک بنگلہ دیش” میں بنگلہ دیشی صدر جنرل ضیاءالرحمن جو 1971 میں بغاوت کا اہم کردار تھے، ان کے پاکستان کے خفیہ دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے بھارتی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اور جنرل ضیاالرحمن کے قتل کے کچھ عرصہ بعد جنرل حسین محمد ارشاد اورریاض کھوکھر کے درمیاں تجارت کے ساتھ دفاعی سامان کی فراہمی کے متعلق جب بات آئی ۔ تو شہید جنرل محمد ضیاء الحق ؒ نے ریاض کھوکوکھر کو ہدائت کی کہ آپ ان کو ہماری طرف سے “بلینک چیک” دیں۔ اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے 40 ایف -6 طیارے اور کچھ بحری جنگی کشتیاں اور بہت سارا گولہ بارودفراہم کیا گیا۔ جس سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات برادرانہ سطح پر آگئے۔
حرف آخر شہید جنرل محمد ضیاء الحق ؒ ایک خود مختار اور ممتاز اسلامی تشخص والی مملکت کے وجود کے لئے کی جانے والی ان کوششوں کی ایک کڑی تھے جس کی ابتداء مجدد الف ثانی ؒ نے کی تھی۔ اس لئے بدخواہوں کے پاس دشنام کے سوا کچھ کچھ بچا نہیں ہے۔ مگر ان کے ہم خیالوں کے پاس امید ہی امید ہے۔
؎ تیز رفتار ہیں دُشمن کے فرس تجھ سے سوا
میرے بعد اَے مری بکھری ہوئی صف توُ بھی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*