موٹروے خاتون زیادتی واقعہ! کچھ سوالات اور ابہام

Spread the love

اپنی ٹیم کے ہمراہ ہم لاہور کے وسط سے گزرنے والی نہر  سے ہربنس پورہ رنگ روڈ  پر اپ ہوئے۔ ٹول پلازہ کراس کیا۔ محمود بوٹی سے نیچے سروس لائن پر اترے۔ وہاں سے کلورکاٹی گول چکر سے جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوئے۔ کوئی سڑک سلامت نہ تھی۔ کچی سڑکیں،جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئیں۔ راستے میں گوجرپورہ تھانہ

 کی چوکی دیکھی۔ چوکی کم تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے جانوروں کیلئے چارہ رکھنے والی حویلی زیادہ ہو۔

اک رکشہ ڈرائیور سے راستہ پوچھا اس نے بتایا کہ سیدھا چلے جائیں۔ آگے جنگل ہے۔ اس میں کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ اس سے تھوڑا سے آگے جائیں گئے تو آپکوجگہ مل جائے گی۔ بالکل جب ہم تھوڑا سا آگے گئے۔ تو سیالکوٹ لاہور موٹروے پر  ہم کو میڈیا کی گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔

اوپر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس لئے ہم نے گاڑی کچے پر اتاری اور اس جگہ پہنچے کیلئے آگے بڑھے جو جائے وقوعہ ہے۔ گاڑی سے نیچے اترکر ہم پیدل ہو لئے ۔ کیونکہ مٹی نرم تھی۔ ہمیں یہ تھا کہ گاڑی پر آگے گئے تو کہیں مٹی میں دھنس ہی جائیں۔ وہاں سے تعفن اٹھ رہا تھا ۔ گندگی کے ڈھیرتھے ۔ جگہ جگہ جانوروں کی آلائشیں پڑیں تھیں۔

موٹروے کی ڈھلوان سے نیچے اتریں تو باڑ اور اسکے ساتھ مضبوط جالیاں  لگی ہوئی ہیں۔ سامنے کرول کاٹی کا جنگل ہے۔ جس کے کی حدود شروع ہونے سے پہلے باڑ اور لوہے کی ویسی ہی مضبوط جالیاں ہیں جیسا موٹروے کے ساتھ ساتھ ڈھلوان پر موجود ہیں ۔  لیکن جب میں جائے وقعہ پر پہنچا تو بہت سی چیزیں حیران کن لگیں۔

موٹروے کی ڈھلوان کے نیچے لگی باڑ بھی وہیں سے ٹوٹی ہوئی تھی جہاں سے جنگل کی باڑ ٹوٹی  تھی۔ ایسا لگا جیسے اس راستے کو معمول کے مطابق موٹروے پر پیدل ڈھلوان سے اوپر چڑھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بار تازہ نہیں ٹوٹی۔ بلکہ جنگل کے اندر جانے کا باقاعدہ راستہ بنایا گیا ہے۔

موٹروے پر جہاں خاتون کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا اور وہ رکی۔ جائے وقوعہ سے اسکو دیکھا جائے تو بالکل ترچھی لائن جیسا زاویہ بنتا ہے۔ اس سے کافی فاصلہ محسوس ہوتا۔

موٹروے سے نیچے دو اطراف سے اتارا تو جاسکتا ہے لیکن جو جائے وقوعہ ہے وہاں جانے کا راستہ ایک ہی ہے۔

پھر ایک حیران کن اور سوچنے والا امر جسے نے مجھے گھمائے رکھا وہ یہ تھا کہ جہاں گاڑی رکی۔ اس کے نیچے ہی پلی ہے۔ یعنی عام طور پر موٹروے کے نیچے وہ راستے جہاں سے دو طرفہ ٹریفک چلتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی اگر بائیک یا گاڑی کھڑی کردی جائے تو دس سے پندرہ فٹ موٹر وے اوپر رہ جاتی ہے اور کوئی بھی شخص اتنے فٹ اوپر جاکر  آسانی سے پھلانگ کر موٹر وے پر چڑھ سکتا ہے۔

گاڑی کا پلی سے تھوڑا تقریبا پچاس فٹ دور ہی رکنا۔

ڈالفن فورس کے اہکار کے مطابق انکو دوبجکر پنتالیس منٹ پر کال موصول ہوئی اور وہ دو بجکر ترپن منٹ پر وہاں پر پہنچ گئے۔ اگر موٹروے  سے کوئی پیدل ڈھلوان سے اتر کر سیدھا جائے وقوعہ کی جانب بھاگ کربھی آئے تو اندھیرے میں کسی اجنبی کا وہاں پر اتنی جلدی پہنچنا بہت مشکل ہے۔ 

https://www.youtube.com/watch?v=cyZ2oGjaE3w

 

پھر ایک سوال یہ بھی ذہن میں گھما کہ اندھیرہ ڈالفن فورس کا اہلکار جب کال پر موٹروے پہنچا جہاں پر کار رکی ہوئی تھی اور اس نے شیشے ٹوٹے ہوئے دیکھے ۔ پھر فائر کیلئے۔ ٹارچ ماری۔ آوازیں لگائیں۔ اگر جائے وقوعہ سے اسکو کوئی آواز بھی آئی اور بچوں کی جوتیاں دیکھیں ۔ تو کار جہاں پر کھڑی تھی وہ جیسا میں نے اوپر ذکر کیا کہ پلی سے تھوڑا سا آگے وہاں سے جائے وقوعہ کیسے نظر آسکتا ہے۔ اتنا گھپت اندھیرہ ہو جہاں۔

اگر وہ اس جگہ سے ڈھلون سے نیچے اترتے ہیں تو وہاں سے نیچے اترے۔ بار کیساتھ ساتھ چل کر وہ وہاں پہنچے جہاں سے بار گری ہوئی ہے۔ جالیاں کٹی ہوئیں ہیں۔ 

  پھر جو مدعی کی جانب سے ایف آر کٹوائی گئی ہے اس کے متن کے مطابق کہ وہ گوجرانوالہ سے اپنے دوست جنید کے ہمراہ وہاں پہنچا تو گاڑی کا شیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔ اپنی عزیزہ کی بعد میں تلاش شروع کردی۔ تو وہ اپنے بچوں کے ہمراہ موٹروے اور جنگل کے درمیان کچے راستے سے آتی دکھائی دی۔

اب ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے۔ گرفتاری کے بعد مقدمہ اور پھر انصاف اپنی جگہ۔ لیکن یہ سوالات ہیں انکو جواب کسی کو تو دینا ہے کہ اتنا ابہام کس لئے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*