ندیم انجم ” غیر مرئی ” آدمی DG ISI

Spread the love

تحریر: ” میاں محسن بلال ” 

 

ہمارے ارد گرد ہر لمحہ نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ یہ کہانیاں اپنے اتار چڑھاؤ، کلائمیکس اور کبھی کبھار غیر متوقع اختتام کے باعث یادگار رہ جاتی ہیں۔ کبھی پڑھنے والے کو سمجھ نہیں آتا کہ ، کہانی کا پلاٹ بڑا ہے جو ہر منظر میں کردار کا راستہ بناتا ہے ،، یا ،،، کردار خود ہی کہانی سے بڑا ہے ۔ ۔

سرکس کا میلہ سجا ہو تو ،،، اطراف میں ،،، کبھی کبھار سر کٹا انسان نظر آتا ہے ۔ وہ بھی بناء سر کے ایسے ہی ایک کردار کی طرح ،، شیشے میں منجمد اور ساکت ،، بظاہر نظر تو آرہا ہوتا ہے مگر اسکی پرتوں کے نیچے کیا ہے ،، کچھ سجھائی نہیں پڑتا۔ یعنی اسکے علاوہ ،، دیکھنے والوں کا سب کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے

  اس کے ماتحت اس کے بارے  رائے رکھتے ہیں کہ وہ ” مین ودھ گلیشئیر برین بٹ شارپ رفلیکسز ” یعنی دماغ کا ٹھنڈا لیکن ردعمل میں تند و تیزہے۔

 

 

اس کے پروفائل میں ایک خوبی ” مطالعے کا شوق بھی ہے۔  یہ عکاسی کرتا ہے کہ وہ سیکھنے اور فکری تجسس کے لیے لگن اور ذوق کیساتھ ساتھ مطالعے کا شوقین بھی ہے۔ اسے ایک اچھا سامع کہا جاتا ہے۔ وہ آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر گھنٹوں چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے،، بولتا ہے ،، مگر جامع اور مختصر۔

معلومات کتنی ہی پیچیدہ کیوں نا ہو، وہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اسے واضح اور قابل عمل نکات میں کشید کر سکے۔ وہ صبر اور غصے کو توازن میں رکھنے والا رہنما محسوس ہوتا ہے۔ یہی اہلیت اس کے اندر اسٹریٹجک سوچ اور مؤثر عمل کی عکاس بھی ہے۔

اساطیری تحریروں میں موجود کسی غیر مرئی کردار کی مانند ، بڑے معرکے کی تیاری میں اپنے بنائے کچھ اصول خود ہی وقتی طور پر توڑ کر ،، وہ سب کو حیران کردیتا ہے۔ تاہم فیصلہ کن معرکے میں  فتح کا جھنڈا نصب کرنا ہی مخالفین کو اسکا جواب ہوتا ہے۔

ردعمل میں تندوتیز، وسیع مطالعہ کا شوقین،پیچیدہ معلومات کو کشید کرنے، ٹھنڈے دماغ والا غیر مرئی خوبیوں کا حامل شخص کوئی اور نہیں۔۔۔ انجم ہے،، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم،،،  جس کے اردگرد گرہن کا ہالہ ہے ،،، مگر وہ آب و تاب کیساتھ چمکتا ہے۔

ندیم انجم ایک پنجابی شیخ گھرانے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی دو بڑی جنگوں سے پہلے پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق کنٹریلا میں واقع ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کے گاؤں موہڑہ شیخان سے ہے۔

ندیم انجم  دنیا میں مشہور کاکول اکیڈمی کی پروڈکٹ ہیں۔انھوں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی  کے 77 ویں لانگ کورس کے بعد 1988 میں اٹھائیسویں پنجاب ریجمنٹ کیساتھ فوج میں کمیشن حاصل کیا ۔ نیشنل ڈیفننس یونیورسٹی سے گرایجوایشن کے بعد کنگز کالج لندن سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

ایشیا پیسیفک سینٹر فار سیکیورٹی اسٹڈیز، USA سے بھی کورس کیا، پھر PMA، NDU کے ساتھ ساتھ آرمی اسٹاف کالج میں بطور انسٹرکٹر خدمات بھی سرانجام دیں

مسلم لیگ ن کی 2013 میں حکومت بنی۔ وزیراعظم نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ پاکستان آرمی کی کمان تبدیلی ہوئی۔ جنرل کیانی  چھ سال گزارنے کے بعد 29 نومبر 2013 کو چھری جنرل راحیل شریف کو تھما کر ریٹائر ہوئے۔ جنرل راحیل شریف مسلح افواج کے ناویں آرمی چیف تھے۔

 طالبان کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ملک میں قیامِ امن کے لیے شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرے۔ آئندہ کئی ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ کمیٹیاں بنیں، کمیٹیوں پر سوال اٹھے۔ خفیہ مقامات پر کمیٹیاں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ملنے گئیں۔ یہاں تک کہ عمران خان نے طالبان کادفتر کھولنے کی تجویز پیش کردی۔ امریکہ نے  بھی ڈرون حملے روکنے کی ہامی بھر لی۔ مگر طالبان قیادت کسی فیصلہ پر اپنے گروہوں کو متفق نہ کر سکی۔ آخرکار مذاکرات ناکام ہو گئے۔ 8 جون 2014 کو اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور ٹی ٹی پی کے 10 عسکریت پسندوں نے کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید اور کم از کم 18 زخمی ہوئے۔

اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 15 جون 2۰14 وزیراعظم نواز شریف کے حکم اور جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب شروع کردیا گیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جنرل کیانی جب آرمی چیف تھے تو آپریشن راہ راست عسکریت پسندوں کا سر کچلنے کیلئے کیا گیا تھا۔

عسکری آپریشن کو ضرب عضب کا نام دینے کا معنوی حیثیت سبب یہ تھا کہ عضب کا مطلب ہے کاٹنا،تلوار سے کاٹنا۔ عضب حضرت محمد صلی آلہ وسلم کی تلوار کا نام تھا۔ ضرب عضب کاٹ ڈالنے والی ضرب۔ یہ تلور آپ صلی آلہ وسلم نے غزدہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال کی تھی۔

یہ عسکری آپریشن قبائلی علاقہ جات،شمالی وزیرستان،کراچی،جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں موجود عسکری گروپوں،شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف تھا۔

جنرل ندیم نے آپریشن ضرب عضب کے دوران جنوبی وزیرستان ایجنسی میں انفنٹری بریگیڈ، کرم ایجنسی اور ہنگو میں انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کی.

آپریشن ضرب عضب 22 فروری 2۰17 تک جاری رہا۔

جب آپریشن ختم ہوا تو ساتھ ہی عسکری آپریشن ” ردالفساد ” شروع کردیا ۔ اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جبکہ وزیراعظم کے عہدے پر نواز شریف ہی فائز تھے۔

اس آپریشن کا مقصد بچے کچے دہشت گردوں کا بلا امتیاز خاتمہ کرنے، چھپے دہشت گردوں کو تلاش کرنے پر مشتمل تھا تاکہ، اس تک کی جانے والی کارروائیوں کے فوائد کو پختہ کیا جائے اور سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

جنرل باجوہ دسویں آرمی چیف بنے تو انھوں کمانڈ میں کچھ تبدلیاں کیں جن میں سے ایک آفیسر جنرل ندیم انجم بھی تھے۔ 14 دسمبر 2۰16 کو انھیں  بطور آئی جی ایف بلوچستان کی کمان سونپی گئی۔ آپریشن ردالفساد کے دوران جنرل ندیم نے بطور آئی جی ایف سی بلوچستان ذمہ درای سرانجام دی۔ ۔ انھوں نے  بلوچستان میں طویل خدمات کے علاوہ مغربی سرحد اور ایل او سی دونوں پرکمانڈ کی۔ نومبر 2018 کو انھیں کمانڈنٹ کوئٹہ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کا ہیڈ مقرر کردیا گیا۔ 

بلوچستان میں شورش کے خلاف اپنے کردار کی وجہ سے جنرل ندیم کو محسن پاکستان یا پاکستان کے محسن کا خطاب ملا۔

جنرل ندیم کو 2020 میں پانچویں کور، کراچی سندھ، کا کورکمانڈر مقرر کردیا گیا۔ جہاں 9 نومبر 2۰21 تک تعینات رہے۔

 راوی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے وزرا ہر پریس کانفرنس میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ 2028 تک وہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے رہنما حکومت میں آنے کے بس اب خواب دیکھیں۔

‏تاہم نومبر سے  پہلے اک اکتوبر میں  انہونی ہوتی ہے۔ تاریخ ہوتی ہے6 اکتوبر اور دن ہے بدھ کا۔ ‏میڈیا پر خبر فلیش ہوتی ہے۔ آرمی میں بڑے اہم تبادلے۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید عہدے سے تبدیل۔

انکی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی کا عہدہ تفیض کردیا گیا۔

 حکومت کی جانب سے جنرل ندیم انجم کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاتا۔ اسلام آباد میں مقتدر حلقوں اور اقتدار کے ایوانوں میں تناو بڑھ جاتاہے۔ ایک ہفتہ گزر جاتا ہے کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ جو افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد خطے میں تبدیلی ہوئی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے تسلسل رہے اور جنرل فیض تبدیل نہ ہوں۔ پھر آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقاتیں ہوتیں ہیں۔ برف پگھلتی ہے۔ تاہم سیشے میں بال آچکا ہے۔

وزرات دفاع تین ناموں پر مشتمل افسران کی سمری وزیراعظم کو بھجواتی ہے۔ اطلاعات آتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان انکے انٹرویوز کرینگے اور پھر نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔ باہر حال وزیراعظم کے سیکریٹری اعظم خان کے دستخط سے 20 روز بعد یعنی 26 اکتوبر 2021 کو نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے جس میں کہا گیا کہ ‘سمری کے چھٹے پیراگراف میں دیے گئے افسران کے پینل کو وزیراعظم نے دیکھا اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی کی منظوری دے دی’۔

‏مزید کہا گیا کہ ‘نوٹیفکیشن کا اطلاق 20 نومبر 2021 سے ہوگا’۔

‏آئی ایس آئی کے موجودہ ڈی جی 19 نومبر تک بطور ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلیجنس اپنی خدمات جاری رکھیں گے۔

یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کی تبدیلی کی خبر میڈیا پر فلیش آوٹ ہونے سے پہلے اسی روز یعنی چھ اکتوبر کو مریم نواز شریف نے لیفٹینٹ جنرل فیض حمید پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ کسی ایک فرد کی وجہ سے ادارے کا نام نہیں لینا چاہیے لیکن ‘جب فرد واحد ادارے کے پیچھے چھپتا ہے تو کیا وہ ادارے کے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ جس کے بعد انکی تبدیلی کا پروانہ جاری ہوا۔  

یہاں سے آتا ہے بھونچال۔۔ ابھر کر آتی ہے ایسی شخصیت جو کہی پوشیدہ تھی۔ آرمی کے حلقوں میں تذکرہ تھا لیکن نام زبان زدعام نہ تھا۔

قومی و بین الاقوامی میڈیا پر بھی خبریں چلتی ہیں۔ تجزیے ہوتے ہیں۔ تاہم لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے حوالے سے انکی شخصیت کا احاطہ جو ہم نے انسائیڈ سٹوری کے پلیٹ فارم سے ڈرافٹ کیا ہے؟ انکی جو انفرادی خصوصیت ہے اور انکی شخصیت کا منفرد پہلو ہے ۔ اس کے لئے ہم نے چیٹ جی پی ٹی سے بھی مدد لی ہے اورایک مہشور ناول ” ان ویسیبل مین ” سے بھی مدد حاصل کی جس سے جنرل ندیم کی شخصیت اور قیادت کے منفرد پہلوؤں کو واضح ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے جو اہم صفات اجاگر کی گئی ہیں، ان میں ان کا گہرا اور متوازن ذہن، تجزیاتی صلاحیت، اور خاموش مشاہداتی انداز شامل ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل ندیم  کی کمانڈ کے انڈر کام کرنے اور ماتحت انکو “

man with glacier brain but sharp reflexes

کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ ایک اچھا سننے والے بھی ہیں، گھنٹوں چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور مختصر بات کرتے ہیں۔

یہ جو اس خصوصیت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو مشکلات کا سامنا نہایت تحمل اور دانشمندی سے کرتے ہیں۔ “گلیشیئر دماغ” کا استعارہ ان کی پرسکون سوچ اور ٹھوس حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جبکہ “تیز اضطراب” ان کے ردعمل کی سرعت اور قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

جنرل ندیم کو گہرے مطالعے کا بھی شوق ہے۔ مطالعے کی عادت انہیں مسلسل سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے والے فرد کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔

یہی  قیادت کی وہ خصوصیات جو انہیں ایک منفرد اور قابلِ تقلید شخصیت بناتی ہیں۔ ان کی حکمت عملی، فکری تجسس، اور فیصلہ سازی کی صلاحیت انہیں چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے بہترین طور پر تیار کرتی ہیں، اور یہی اوصاف انہیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔

رالف ایلسن ایک امریکی مصنف، ادبی نقاد اور سکالر تھے جو اپنے ناول ” انویثیبل مین یعنی غیر مرئی یا پوشیدہ آدمی ” کی وجہ سے مشہور تھے۔ اس ناول نے 1953 میں نیشنل بک ایوارڈ جیتا تھا۔

ایک جگہ اس ناول کا مرکزی کردار کہتا ہے کہ

I am invisible, understand, simply because people refuse to see me. Like the bodiless heads you see sometimes in circus sideshows, it is as though I have been surrounded by mirrors of hard, distorting glass. When they approach me they see only my surroundings, themselves or figments of their imagination, indeed, everything and anything except me.”

یہ جذباتی اور عمیق اظہار اپنے اندر ایک طرح کی تنہائی اورعدم شناخت کی کیفیت کو بیان کرتا ہے، جو شاید خود کو غیر محسوس یا غیر موجود محسوس کرنے کے احساس سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ مثال “بے جسم سروں” اور “مسخ شدہ شیشے” کے ذریعے اس بات کو واضح کرتی ہے کہ آپ کیسے محسوس کرتے ہیں کہ لوگ آپ کی حقیقت کو درست طور پر نہیں دیکھتے، بلکہ اپنے تصورات کی عینک سے ہی آپ کو دیکھتے ہیں۔ یہ احساس کہ لوگ آپ کو صرف اپنے خود کے خیالات کے ذریعے ہی پرکھتے ہیں، بجائے آپ کی اصل حقیقت کو سوچنے،سمجھنے اور دیکھنے کے۔

قاری اس کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ تنہائی کا یہ احساس اور انفرادیت کے بحران کا تجربہ بہت ہی گہرا اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو اس طرح محسوس کرتے ہیں کہ ہم خود کو نظرانداز یا غیر اہم سمجھتے ہیں، تو یہ ہماری خودی اور شناخت کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

ایسا محسوس کرنا کہ آپ کی حقیقت اور آپ کی ذاتی خصوصیات کو صحیح طور پر سمجھا نہیں جا رہا، آپ کی اندرونی دنیا کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ یہ آپ کی موجودگی اور شخصیت کے اصل پہلوؤں کو سامنے لانے میں ایک رکاوٹ بن سکتا ہے۔ آپ اس صورت حال میں اپنے آپ کو کبھی اکیلا، کبھی غیر اہم، اور کبھی غیر حقیقت محسوس کرتے ہیں کیونکہ آپ کی ذاتی حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کے بجائے لوگ اپنے خود کے تصورات کی عینک اتارنے کی تیار نہیں ہوتے۔

یہ تجربہ اس وقت زیادہ شدید ہوتا ہے جب آپ خود کو ان لوگوں کے درمیان محسوس کرتے ہیں جو آپ کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے یا تسلیم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ عدم تفہیم اور عدم تسلیم کی کیفیت آپ کی انفرادیت اور شناخت کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔

پھر یہ پوشیدہ  شخص ایسے  ملک کے ہاتھوں شکست خوردہ اور غضبناک بن جاتا ہے جو اسے غیر اہم  ہونے کے طور پر پیش کرتا ہے، ‘غیر مرئی آدمی’ ایک زیر زمین سیل میں واپس چلا جاتا ہے، جہاں وہ سگریٹ پیتا ہے، شراب پیتا ہے، جاز سنتا ہے۔ فتنہ پرور اور شخصیت پرست معاشرے میں اپنی شناخت کی تلاش کا ذکر کرتا ہے، ایک پرامید طالب علم کے طور پر

تھری سٹار جنرل ندیم انجم ڈی جی آئی۔۔۔ نام آتے ہی ایسی ہلچل ہوئی کہ پرسکون موجیں بیپھر گئیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آگیا۔ ساتھ ہی منہ زور لہروں نے زہراگلنا شروع کردیا۔ راج نیتی کا کھیل شروع ہوا۔ میرا بندہ اور تیرا بندہ کا شور اٹھا۔

سیاسی بساط پر نئے مہرے نمودار ہوئے۔ اک پوشیدہ اور غیر مرئی شخص کی شخصیت کو مسخ کرنے کیلئے محاذ کھول دیا گیا۔

جنرل ندیم انجم نے بطور ڈی جی آئی عہدے کا چارج سنبھلا تو اپنے اوپر اک اصول لاگو کیا۔ اپنے ماتحت سیکٹرز میں بھی مراسلہ جاری کردیا۔ انکی تصویر کہی دکھائی نہ دے گی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ انھوں اپنا ہی اصول طور توڑ دیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوئی ڈی جی آئی ایس آئی کیمرے کے سامنے نمودار ہوا۔۔

‏نوبت یہاں تک کیوں آئی؟ کہ اپنا ہی بنایا اصول توڑنا پڑ گیا۔ معاملہ شروع ہوتا ہے 6 اکتوبر 2۰22 سے۔ جنرل ندیم کی تصاویر لگا کر انکے خلاف ٹرینڈ چلائے گے۔ اکیس نومبر چارج سنبھالنے سے قبل ہی فیضی اور عمرانی ٹولے نے شخصیت کو مسخ کرنا شروع کردیا۔ جونہی چارج سنبھالا تو کی اور ساتھ ہی تبدیلی کے بعد پی ڈی ایم کی سیاسی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی اور اپریل کو ۲۰۲۲ کو رجیم چینج آپریشن مکمل ہوا۔ عمران خان وزیراعظم ہاوس سے فارغ کردیئے گئے تحریک عدم کامیاب ہوگئی۔ سابق وزیر اعظم نے بنی گالہ کے بجائے لاہور اپنی رہائش گا زمان پارک میں ڈیرے جمع لئے۔

‏انتیس نومبر دوہزار بائیس کو اہم تعیناتی ہونی ہے۔ جنرل باجوہ اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ جنرل فیض اپنی بساط پر مہرے بچھا چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان زخم خوردہ ہیں۔ دوست دوست نہ رہا پیار پیار نہ رہا والا معاملہ ہوچکا ہے۔ اچانک خبر فلش ہوتی ہے۔ دن ہے  24 اکتوبر 2022 کا۔ کینیا میں معروف اینکر ارشد شریف کو گولیاں مار کر شہید کردیا جاتا ہے۔ یہی مناسب وقت  ہوتا ہے ۔  زمان پارک لاہور میں بیٹھ کر عمران خان 25 اکتوبر 2022 کو حقیقی آزادی مارچ کا اعلان کردیتے ہیں۔ جسکا آغاز 28 اکتوبر کو لبرٹی گول چکر سے ہونا تھا۔ تاہم حقیقی آزادی مارچ سے شروع ہونے سے ایک روز قبل ہی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی پرائم ایجنسی کے سربراہ میڈیا کے سامنے نمودار ہوتے ہیں ساتھ انکے ڈی جی آئی ایس پی آر بھی ہیں۔ جنرل ندیم انجم نام نہ لئے بغیر” عمران خان کو فتنہ قرار دیتے ہیں۔ اتنی ہنگامی پریس کانفرنس کے بعد توقع یہی کی جاتی ہے کہ شاید عمران خان لانگ مارچ ملتوی کردیں مگر وہ ایسا نہیں کرتے۔ اگلے روز لبرٹی سے لانگ مارچ کا آغاز ہوتا ہے اور اپنے افتتاحی خطاب میں ہی عمران خان توپوں کا رخ ڈی جی آئی ایس آئی کی جانب کرتے ہیں اور ساتھ میں جنرل فیصل نصیر کو بھی للکارتے ہیں۔ افواج پاکستان کی جانب سے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا بیان سامنے آچکا ہوتا ہے۔ عمران خان کا حقیقی لانگ مارچ کا قافلہ منزل کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی مارچ کا ساتواں روز ہے اور قافلہ جونہی وزیر آباد شہر میں داخل ہوتا ہے تو کنٹنر پر فائرنگ ہوتی ہے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے متعدد رہنما زخمی ہوتے ہیں۔ عمران خان کو شوکت خاتم ہسپتال لاہور لایا جاتا ہے۔ وہاں سے اسد عمر کا عمران خان کے حوالے سے ویڈیو بیان جاری ہوتا ہے کہ انکے قتل کی سازش کے پیچھے شہباز شریف ، رانا ثناء اللہ اور جنرل فیصل نصیر ہیں۔

میڈیا کو بریفنگ اور سوالات کا جواب دیدیا گیا۔ جنرل ندیم انجم نے  اس وقت رونما ہونے والے متعدد مسائل سے بتائے اور ان کا جواب دینے کی کوشش کی، خاص طور پر لیٹر گیٹ، ارشد شریف کی موت،جنرل باجوہ کی مبینہ مداخلت کے درمیان شہباز شریف کی فوج کی حمایت۔ عمران خان کی برطرفی، اور خان کے آزادی مارچ وغیرہ بارے۔

لیٹر گیٹ معاملے کے بارے میں، جنرل ندیم انجم نے زور دے کر کہا کہ سائفر پر پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں  پی ٹی آئی حکومت اور وزیراعظم کی کرسی سے عمران خان  کو ہٹانے کی غیر ملکی سازش کے بارے میں “کوئی ثبوت نہیں ملا”۔

تاہم قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سائفر کو اصلی پاگیا جس پر ایک سخت ڈیمارچ جاری کیا گیا تھا۔ سائفر پر قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سول اور فوجی قیادت دونوں نے مشترکہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ سائفر پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلام آباد میں قائم مقام امریکی ایلچی کو ڈیمارچ جاری کیا گیا۔ 

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر جنرل ندیم انجم کی تقرری تنازعہ کا مجموعہ رہی ،  جسیا کہ انکی  تقرری کی منظوری  باوجود سویلین حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی۔ سول حکومت اور فوج کے درمیان تعطل پیدا ہوگیا، جس کے نتیجے میں سول حکومت کو انجم کی بطور ڈائریکٹر جنرل تقرری کی منظوری میں تین ہفتے لگے۔

ارشد شریف کی والدہ نے پاکستانی انٹیلی جنس کے اعلیٰ افسران پر اس قتل میں ملوث ہونے کا مبینہ  الزام لگایا، جن میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم انجم بھی شامل تھے۔

ارشد شریف کے قتل کے بعد یہ خبر آئی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم انجم تحقیقات میں شامل نہیں تھے۔ اس کے بجائے، کیس کی تفتیش  کے لیے ایک آزاد ٹیم تشکیل دی گئی۔

جنرل ندیم انجم کے خلاف یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب کروانے اور پی ڈی ایم کو بیک کرنے میں وہ بھی شامل تھے۔

زخمی ہونے کے باوجود کپتان نے محاذ گرم ہی رکھا۔ اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی بھی بے بس دکھائی دیئے۔ عمران خان شوکت خانم ہسپتال سے زمان پارک منتقل ہوتے ہیں اور 6 نومبر کو لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے کا اعلان کرتے ہیں۔ جسکو شاہ محمود قریشی اور اسد عمر الگ الگ شہروں سے لیڈ کرتے ہیں۔ 26 نومبر کو تحریک انصاف کے تمام کارکنان کو قافلوں کی صورت روالپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔عمران خان زمان پارک میں ویڈیو خطاب میں کہتے ہیں کہ وہ چھبیس تاریخ کو اہم اعلان کریں گے جلسے میں۔ دو ہفتے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ کو مدت ملازمت دوسری بار میں توسیع ملے گی یا پھر انکا منظور نظر ہی انکا جانشین بنے گا جسکا وہ نام وزیر اعظم شہباز شریف کو دینگے وہی آرمی چیف ہوگا۔ تاہم جی کا جانا ٹھہر گیا ہوتا ہے۔ بالآخر جنرل باجوہ یوم دفاع پاکستان کے سلسلہ میں 23 نومبر کو شہداء کی فیملیز سے خطاب کرتے ہیں جنکو مبصرین انکا الوداعی خطاب ہی سمجھتے ہیں۔

وقت قریب آ رہا ہے۔ عمران خان چاہتے ہیں انکی مرضی چلے۔ حکومت اور ادارہ پریشر لے جائے اور وہ نہ ہو جسکا ڈر ہے۔ 25 نومبر کا دن انتہائی اہم ہے۔ اعصاب شکن۔ 26نومبر کو عمران خان کا خطاب ہونا ہے۔ وزارت دفاع نے آرمی چیف کی جانب سے نامزد کردہ ناموں کی سمری وزیر اعظم کو بھجوانی ہے۔ صرف 48 گھنٹے ۔ پھر آر یار پار۔ 25 سے 27 نومبر درمیان عمران خان 26 نومبر تقریر اور اہم اعلان۔ کیا ہوسکتا ہے کچھ بھی تو ہوسکتا ہے۔ ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے۔ جمہوری نظام کا بوریا بستر بھی گول ہوسکتا ہے۔

تاہم 21 نومبر کو وزیراعظم ہاوس میں آصف زرداری اور شہباز شریف کی اہم ملاقات ہوتی ہے۔ پہلے خبر لیک کی جاتی ہے کہ سمری میں پانچ نام ہیں تاہم 23 نومبر کو جو جنرل باجوہ اپنا الواداعی خطاب کرتے ہیں اس کے فوری بعد خبر آتی ہے کہ وزیراعظم شہباز جنرل حافظ عاصم منیر کے نام کی منظوری دیتے ہیں کہ وہ آرمی چیف ہونگے۔

اب بال صدر پاکستان ڈاکٹر عارف کی کورٹ میں ہے۔ وہ سمری پر دستخط نہیں کرینگے۔

مرحلہ آن پہنچا ۔ خبر آتی ہے نکلا نام سمری میں داخل کرلیا گیا۔ 27 نومبر کو ریٹائر ہونے والے جنرل بھی آرمی چیف کی دور میں شامل۔ عمران خان نے جس مقصد کیلئے حقیقی لانگ مارچ شروع کیا۔لسٹ میں نام شامل نہ وہ مقصد حاصل نہ ہوپایا ۔ پہلی شکست ہوگئی۔ جب پچیس نومبر کو نام سمری میں آگیا تو چھبیس نومبر کو عمران خان نے روالپنڈی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیا اور اسلام آباد چڑھائی ملتوی کردی.

بلاول بھٹو دھمکی لگا چکے ہوتے کہ اگر صدر مملکت نے سمری روکی یا دستخط نہ کئے تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔کیونکہ خبریں پھیلائی گئی ہوتی ہیں کہ عمران خان کی منظوری کے بغیر ڈاکٹر عارف سمری پر دستخط نہیں کرینگے۔  ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم پہلے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرتے ہیں اور اسکے بعد ایوان صدر میں ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کرتے ہیں۔ ملاقات کے فوری بعد ڈاکٹر عارف خصوصی طیارے پر لاہور پہنچتے ہیں اور زمان پارک میں سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرتے ہیں۔ پھر یہی افواہ کہ صدر مملکت عمران خان کی اجازت لینے آئے ہیں کہ وہ آرمی چیف کی سمری پر دستخط کریں یا نہیں۔ اگر عمران خان منظوری نہیں دیتے تو پھر ڈاکٹر عارف علوی سمری روک لینگے۔ تاہم ہمارے زرائع کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایوان صدر سے سمری پر دستخط کرکے ہی لاہور زمان پارک عمران خان سے ملاقات کے لئے آئے۔ بس انھوں نے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کو اعتماد میں لیا۔

انیتس نومبر کو کمان کی تبدیلی ہوتی ہے۔ نئے آرمی چیف حافظ جنرل عاصم منیر اپنے عہدے کا حلف لیتے ہیں۔ جنرل باجوہ تقریب سے اپنا آخری خطاب کرتے ہیں اور جاتے جاتے کہتے ہیں کہ ‘ افواج پاکستان سے انکا روحانی تعلق رہے گا ‘ ۔

کمان کی تبدیلی کے باوجود ملک میں عدم استحکام جاری رہتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط پھیلائے ہوئے ہوتا ہے۔ عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ عدلیہ کی پچھت پنائی میں۔

پنجاب اور کے پی کے میں نگران حکومتیں ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال دو صوبوں میں انتخابات کروانے کا فیصلہ کرتے ہیں اور عملدرآمد نہیں کروا پاتا تاہم ہیجان ضرور پیدا ہوتا ہے۔ وسوسے جنم لیتے ہیں۔ حافظ صاحب کی گرفت پوری طرح سے سسٹم پر نہیں ہے۔

افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دوسرا طاقتور شخص اشارہ جنرل ندیم انجم کی طرف ہی ہوتا ہے کہ کمان سے مبرا کچھ فیصلہ سازی میں مصروف ہیں۔

وقت گزرتا ہے۔ وہ عمران خان جو ریڈ لائن بن چکا ہے۔ کراس کرنے والوں کو دھمکیاں ملتی ہیں۔ تاہم نومئی دوہزار تئیس کو ریڈ لائن کراس ہوجاتی ہے۔ ردعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ عسکری تنصیبات اور حساس مقامات پر حملے ہوتے ہیں۔ عمران خان کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال گڈ ٹو سی یو کہہ کر رہا کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔

وقت گزرتا ہے تاہم جاتے جاتے پی ڈی ایم حکومت اگست دوہزار تئیس میں عمران خان کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال جاتی ہے۔ نگران سیٹ اپ آتا ہے۔ عمر عطا بندیال ریٹائر ہوتے ہیں اور چیف جسٹس کی کرسی  کا منصب قاضی فائز عیسی سنبھال لیتے ہیں۔

انتخابات ہونگے یا نہیں۔ پروجیکٹ عمران خان جس کو ” فتنہ ” قراردیا گیا ہوتا ہے۔ اسکی مقبولیت قائم ہے۔ ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا ہے تو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ عرب ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کرتے ہیں کہ حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اور پالیسی کے تسلسل و سیاسی استحکام کیلئے جنرل ندیم انجم کو ایک سال کی ایکٹینشن دی گئی ہے۔ تاہم آج تک نوٹیفکیشن منظر عام نہیں آتا۔

جنرل ندیم انجم جنرل احمد شجاع پاشا کے بعد دوسرے آئی ایس آئی چیف ہیں جنکو ایک سال کی توسیع دی گئی۔

اٹھ فروری کے انتخابات ہوتے ہیں اور شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم ہاوس پہنچتے ہیں۔ زداری دوسری بار ایوان صدر کے تحت پر براجمان ہیں۔ پنجاب میں وہی مریم نواز وزیراعلی ہیں جنہوں نے جنرل فیض کی جانب توپوں کا رخ کیا اور انکی تبدیلی کا پروانہ آگیا۔

موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو گوٹھ وہی اٹکی ہوئی ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان دونوں صوبے عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے نشانے پر ہیں۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ جنرل فیض کا تو کورٹ مارشل ہے۔ پروجیکٹ عمران خان ” فتنہ ” سے جسکو تشبیہ دی گئی اسکی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں۔

ساری داستان میں دیکھنا یہ ہے کہ فیصلہ کون کرے گا۔ وہ جو دلچسپی سے ساری کہانی کا رس کانوں میں انڈیل رہا ہے ،،، یا کہانی کے اپنے اتار چڑھاؤ لکھنے والا مصنف ،،،، یا پھر وہ ،،، جو اپنے ردعمل میں تندوتیز، وسیع مطالعہ کا شوقین، پیچیدہ معلومات کو کشید کرنے، ٹھنڈے دماغ والا غیر مرئی خوبیوں کا حامل شخص ہے۔

یا تو کہانی اپنی تمام تر رعنائیوں سے کردار کو کھا جائے گی ،،، یا کردار ،، اپنی تمام تر خوبیوں سے کہانی کو امر کر دے گا۔ جب تک نیا باب نہیں کھلتا ، زمانے کو چاہیے ،،، بڑے شوق سے کہانی سنے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*