استحکام پاکستان کیوں ضروری ہے

Spread the love

تحریر:  شرافت علی

سیاست میں مد و جذر ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کا بننا اور ٹوٹنا بادی النظر میں سیاسی فکر و شعور کی بالیدگی اور عملی سیاست میں تنوع کی علامت ہے۔ ان پارٹیوں میں ٹوٹ پھوٹ کی بڑی وجہ پارٹی قاٸدین کے آمرانہ مزاج اور فیصلے کے تمام تر اختیارات کو اپنی ذات تک محدود رکھنا ہے۔ حال ہی میں نٸی بننے والی جماعت استحکام پاکستان بھی قاٸد تحریک انصاف کے اسی قسم کے آمرانہ رویےاور باہمی مشاورت سے فیصلے کرنے کی بجاٸے چند خوشامد پسند عاقبت نا اندیش لوگوں کے غیر عوامی کردار کا نتجہ ہیں۔ لیکن اس پارٹی کا قیام دیگر پارٹیوں کے قیام سے قدرے مختلف اور منفرد ہے۔ آٸی پی پی کے قیام سے قبل ہی تقریبا سو سے زاٸد پارلیمنٹیرینز اور قاٸدین نے متفقہ طور پر آٸی پی پی کے پیٹرن انچیف جہانگیر ترین اور صدر علیم خان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا مگر جہانگیر ترین نے دیگر سربراہان پارٹی کی طرح اپنی ذات کو مرکز بنانے اور نرگسیت کا شکار ہونے کی بجاٸے باہمی مشاورت پر یقین کرتے ہوٸے اپنے گھر کٸی مشاورتی اجلاس منعقد کٸے۔ ان بیٹھکوں میں پارٹی کے قیام اس کی غرض و غاٸت اس کے مقاصد اور اس کے منشور سمیت کٸی اہم امور پر گفتگو کی جاتی رہی۔ کٸی تجاویز زیر بحث آٸیں جن میں کٸی رد ہو گٸی اور کٸی ایک کو اپنا لیا گیا۔ پیٹرن انچیف اور صدر کے علاوہ نوجوان قیادت عون چودھری کہنہ مشق سیاست دان نعمان لنگڑیال زیرک نڈر سیاست دان ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سمیت کٸی عوامی قاٸدین کی رہنماٸی میں یہ قافلہ پارٹی کی شکل اختیار کرتا گیا اور پارٹی معرض وجود میں آتی گٸی۔ شمولیت کا یہ سلسلہ نذر محمد گوندل کی صورت میں تا حال جاری ہے جس میں عید کے بعد رکنے کی بجاٸے تیزی کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی رہنما کی قوت اس کے حلقے کی سیاست ہوتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ اس پارٹی کے تمام بانی اراکین پارلیمنٹ اور سیاسی رہنما اپنے اپنے حلقہ کی سیاست میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ قدامت پسندی کا خاتمہ ہے یا نٸی جہتوں کو فروغ دینے اور بہتری کی نٸی راہ کی کوٸی شکل ہے۔ بطور خیر اندیش وطن عزیز پہلی راٸے تو یہی ہے کہ یہ سیاسی ٹوٹ پھوٹ بہر طور عوامی فلاح کا باعث ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوٸی پارٹی اپنے آپ کو مضبوط شمار کرتے ہوٸے آمرانہ فیصلے کرنا شروع کر دے تو اس پارٹی کی سیاست پر عوامی فلاح کی بجاٸے پارٹی مفادات کا رنگ غالب آ جاتا ہے لہذا ایسی صورت میں راہیں جدا کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔ بقول ساحر
تعارف روگ ہو جاٸے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جاۓ تو اس کا چھوڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
سو بوجھ بنے تعلق اور روگ بنے تعارف کی بجاٸے خدمت کی نٸی راہیں متعین کرنا راہ فرار نہں بلکہ راہ فلاح ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی کا نعرہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی ہے۔ موجودہ سیاسی و معاشی حالات کے پیش نظر ایسی سوچ اور ایسا نصب العین وقت کی اہم ضرورت ہے۔ امید ہے کہ یہ پارٹی پاکستان کے حالات کو بدلنے اور انہیں مستحکم کرنے میں فعال کردر ادا کرے گی۔ پارٹی قاٸد جہانگیر ترین اور اس کےبیٹے علی ترین کی اپنے حلقے میں جاری عوامی فلاحی منصوبے اس عزم کا ثبوت ہیں۔ علی ترین کے ایک ٹویٹ میں ان کی جانب سے وویمن امپاورمنٹ یعنی خواتین کو مضبوط بنانے کی خواہش اور ان کی حوصلہ افزاٸی کے ساتھ ساتھ طلبا کے لٸے مشہور برطانوی یونیورسٹی میں اسکالرشپس کا اجرا اس بات کا غماز ہے کہ ملک کا مستقبل مظبوط اور روشن فکر کی وجہ سے محفوظ ہے۔ اسی طرح صدر آٸی پی پی علیم خان کے فلاحی عوامی منصوبے بھی کسی سے چھپے ہوٸے نہں ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کس حد تک پاکستان کو مستحکم بنا سکے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتاٸے گا لیکن پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی وغیرہ کے کٸی ادوار برداشت کرنے والی عوام کے لٸے آٸندہ انتخابات میں امید کی ایک کرن استحکام پاکستان کی صورت میں موجود ہو گی جس کا انتخاب کر کے وہ پاکستان کی باگ ڈور ایک نٸی قیادت کو سونپ کر کسی معجزے کے رونما ہونے کی امید لگا سکتے ہیں۔ ورنہ ان دیگر سیاسی جماعتوں کے لٸے عوام تختہ مشق تو بنے ہی ہوٸے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ پارٹی ہوا کا تازہ جھونکا اور ملک کے لٸے نیک شگون ثابت ہو گی اور خیر و برکت کا باعث ہو گی جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی عوام کا بڑا طبقہ جو اس سے قبل اس پارٹی رہنماوں کی وجہ سے تحریک انصاف سے جڑا ہوا تھا ان قاٸدین کی علیحدگی اختیار کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف سے الگ ہو گیا اور پاکستان کے حالات قدرے پر امن ہو گٸےاور آٸی ایم ایف کے ساتھ کٸی مہینوں سے لٹکا ہوا معاہدہ طے پا گیا ہے جو استحکام پاکستان کی ایک دلیل اور استحکام پاکستان پارٹی کے وجود خیر کا ثبوت ہے۔

ترقی منتظر ہے پھر کسی پختہ ارادے کی
کوٸی تو لاج رکھے قوم سے دیرینہ وعدے کی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*