ریاست نے ساگر کو فراموش کردیا

Spread the love

: انسائیڈ سٹوری :

مرزا اسد اللہ غالب نے کا شعر ہے کہ 

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
یہ مجھے تب یاد آیا جب فکری محاذ پر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ طارق اسماعیل ساگر کو لحد میں اتارا گیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=BgodpZ2oxn4
 یقین ہے کہ ایسی صورتیں لالہ و گل میں نمایاں ضرور ہونگی۔ 72کتابوں کے مصنف طارق  اسماعیل ساگرکے قلم سے تحریر ہوئے الفاظ سے مادر وطن سے محبت کی خوشبو آتی۔ نہ جانے کتنے ہی نوجوانوں میں انکی تحریریں پڑھ کر افواج میں بھرتی ہونے کا شوق پیدا ہوا۔ 
میں ایک جاسوس تھا یہ کہنے کو ایک ناول ہے لیکن اصل میں یہ ساگر صاحب کی آبیتی ہے۔
ایم کیو ایم کے خلاف ‘ دہشت گرد ‘ جیسی کتاب لکھنا کوئی آسان نہ تھا لیکن ساگر صاحب نے اپنے قلم کا مجاہد ہونے کا ثبوت دیا اور حق ادا کردیا۔
کمانڈو، چناروں کے آنسو، خفیہ ایجنسیوں کی دہشت گردی ، را،دیوتا کی موت ‘ وہ کونسا موضوع نہیں تھا جس پر ساگر صاحب نے قلم نہیں اٹھایا۔
مجھے یاد ہے 2008 ۔ جب میں نوائے وقت کے ٹی وی وقت نیوز میں بطور اسسٹنٹ بھرتی ہوئی۔ کراس ایگزیمنیشن پروگرام کا نام تھا اور طارق اسماعیل ساگر اسکے میزبان۔
زرخیز دماغ والے ساگر صاحب کے پاس واقعات کا جہان تھا۔ 
پہلی بار بانی طالبان ملامحمد عمر کے استاد کرنل امام شہید کو طارق اسماعیل ساگر ہی نے پروگرام میں انٹرویو کیلئے لیا۔
مہند ایجنسی کی سنگلاح پہاڑیوں پر ہم ساگر صاحب کیساتھ پروگرام کیلئے گئے۔ جہاں پر نیٹو کی جانب سے پاکستان کے کیمپ پر حملہ کیا گیا۔ یہ وطن کی مٹی کا قرض تھا اور ایک سچے پاکستانی کی نشانی کہ وہ نیٹو کی بربریت دکھانے وہاں پہنچے۔
ساگر صاحب، کورونا میں مبتلا ہوئے۔ لاہور کے سرکاری ہپستال جناح لاہور میں زیر علاج رہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ ساگر صاحب کے بیٹے بتایا کہ انکے والد کو پاکستان سے عشق تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=rmqyk1tDdDs
لیکن صد افسوس ریاست نے ساگر صاحب کو فراموش کردیا۔ چشم پوشی اختیار کر لی۔ جن اداروں کیلئے وہ زندگی بھر حامی رہے نہ ان میں سے کوئی اور نہ ہی حکومتی نمائندہ کوئی جنازے میں شریک ہوا۔ 
کورونا میں مبتلا ہونے سے پہلے ساگر صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ انھوں نے کہا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ 
جاری ہے 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*