خاتون بہت کم کپڑے پہنے تو مرد پراثرات ہوں گے: عمران خان

Spread the love

: انسائیڈ اسٹوری :

 وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکی ٹی وی چینل ایچ بی او پر ’ایکزیوس‘ نامی پروگرام کے لیے صحافی جوناتھن سوان کو انٹرویو دیا جس میں انھوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’افغانستان میں فوجی کارروائی کرنے کے لیے پاکستان ہرگز امریکہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گا۔‘

عمران خان نے کہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں ‘ پاکستان کا جوہری پروگرام صرف دفاع کے لیے ہے، یہ کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں‘ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو دونوں ممالک مہذب ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں ‘

جوہری ہتھیاروں کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی‘ طالبان نے افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح کی مہم شروع کی تو بڑے پیمانے پر خون ریزی اورخانہ جنگی ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگالہذاامریکا کو انخلا سے قبل افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالنا ہوگا‘

 پاکستان امریکا اور سی آئی اے کو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا‘

امریکا افغان جنگ میں 70ہزارسے زائد پاکستانی شہید ہوئے‘ہم امن کیلئے شراکت دار ہیں‘ اب کسی محاذآرائی کا حصہ نہیں بنیں گے ‘ تنازع کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ایک ارب 40 کروڑ عوام یرغمال بنے ہوئے ہیں‘

 امریکا اگر عزم و ارادہ کر لے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ مغرب ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو نظرانداز کر رہا ہے‘ دنیاکے لئے یہ اہم مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ یہ منافقت ہے ۔

 امریکی صدرجوبائیڈن کے پاس جب بھی وقت ہو وہ مجھ سے بات کرسکتے ہیں لیکن اس وقت یہ واضح ہے کہ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں‘ چین کے ساتھ تمام معاملات پر بند دروازوں کے پیچھے بات چیت ہوتی ہے‘کورونا وبا کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اسمارٹ لاک ڈائون بہترین فیصلہ تھا۔

انٹرویور نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں لگتا ہے معاشرے میں یہ ترغیب پھیلنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ خواتین کیا کپڑے پہنتی ہیں، جس پر عمران خان کا جواب تھا کہ ’اگر کسی خاتون نے بہت کم کپڑے پہنے ہیں تو اس کے مرد پر اثرات تو ہوں گے، جب تک کہ (یہ مرد) روبوٹ نہ ہو۔ یہ کامن سینس ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا عمل جنسی تشدد کے واقعات کو ابھار سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ اگر ایک معاشرے میں لوگوں نے ایسی چیز نہیں دیکھی تو ان پر اس کے اثرات ہوں گے۔ اگر کوئی آپ جیسے معاشرے میں پروان چڑھے تو شاید اس کے آپ پر کوئی اثرات نہ ہوں۔‘

’یہ کلچرل ایمپیرئل ازم (ثقافتی سامراجیت) ہے کہ جو کچھ ہمارے کلچر میں ہے وہ دوسرے کے کلچر میں بھی ہو۔ ایسا نہیں ہوتا۔‘

جوناتھن سوان نے پوچھا کہ ’جب آپ ایک کرکٹ سٹار تھے تو آپ کو پلے بوائے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ آپ کے اپنے بیڈروم میں بغیر شرٹ کے تصاویر تھیں۔ آپ کی جانب سے اس بات پر تنقید کرنا ٹھیک نہیں لگتا۔‘

عمران خان کا اس پر جواب تھا کہ ’یہ بات میرے سے متعلق نہیں۔ یہ میرے معاشرے کے بارے میں ہے۔ میری یہ ترجیح ہے کہ میرے معاشرے میں لوگوں کا رویہ کیسا ہے، کیسے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ سیکس کرائم بڑھ رہے ہیں تو ہم بیٹھ کر بات چیت کرتے ہیں کہ ہم کیسے اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ میرا معاشرہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بارے میں کچھ کرنا پڑے گا۔‘

 عمران خان سے انٹرویو کرنے والے نے جب استفسار کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن سے مستقبل میں ملاقات کے موقع پر بات چیت کے دوران ان کی ترجیح کیا ہو گی تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر ان کے ایجنڈے پر سرفہرست ہو گا۔

 وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار، ایک ایسا ملک جو اس سے رقبے میں سات گنا بڑا ہے کے تناظر میں ،اس کے اپنے دفاع کیلئے ہیں‘عمران خان کا کہنا تھاکہ امریکی انخلاءسے قبل مسئلہ کا سیاسی حل ضروری ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کا سیاسی حل، جس کے ذریعے طالبان اور دوسرے فریقین پر مشتمل اتحادی حکومت قائم ہو، کے بغیر امریکی افواج کے انخلا سے خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان طالبان کو اقوام عالم میں خوش آمدید کہے گاتو وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام کی جو بھی نمائندگی کرے گا ہم اس کے ساتھ کام کریں گے 

انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد “اسلامی دہشت گردی” کی اصطلاح وضع کی گئی جس کے ذریعے مغرب میں لوگوں کو گمراہ کیا گیا اور مغربی دنیا میں یہ غلط تاثر پیدا ہو گیاکہ اسلام دہشت گردی کا باعث ہے۔دہشت گردی کی سرگرمیوں میں چند مسلمانوں کے ملوث ہونے کے باعث دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ مسلمان نشانہ بن گئے۔

چین میں ایغور مسلمانوں پر مظالم سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ چینی حکومت کے مطابق ایسا نہیں ہے‘چین مشکل وقت میں ہمارے سب سے بہترین دوستوں میں سے ایک رہا ہے، جب ہم واقعی مشکلات کا شکار تھے چین ہماری مدد کو آیا، وہ جیسے ہیں ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔   

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*