پاکستان ڈیموکریٹک مومومنٹ کی تشکیل کیسے ممکن ہوئی؟

Spread the love

: انسائیڈ اسٹوری :

اپوزیشن اب ’’سو پیاز اور سو جوتوں‘‘ کے لئے تیار نہیں’  کےعنوان سے سنئیر صحافی نصرت جاوید کا روزنامہ نوائے وقت میں تازہ کالم میں مستبقل کی بنتی سیاسی تصویر اور ایک اہم انکشاف بھی کیا گیا ہے۔ نصرت جاوید نے لکھا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تشکیل کیسے ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ 

پاکستان کو فیٹف  گرے لسٹ سے نکالنے کے نام پر تیار ہوئے قوانین قومی اسمبلی اور سینٹ میں یکایک منظور ہونا شروع ہوئے تو ایک اہم قانون کی منظوری کے بعد ایوانِ بالا کے قائد ایوان ڈاکٹر وسیم شہزاد نے کھڑے ہوکر مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی سے وابستہ سینیٹروں کو شریف اور زرداری خاندان کے ’’ذہنی غلام‘‘ پکارا۔اپوزیشن کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے چند ’’ذہنی غلاموں‘‘ نے اس کے بعد بغاوت کا اعلان کردیا۔حکومت کو بالآخر ’’مسترد‘‘ ہوئے قوانین کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظورکروانا پڑا۔مذکورہ قوانین کو جس انداز میں بالآخر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے منظور کروایا گیا وہ حقیقی معنوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تشکیل کا باعث ہوا۔

https://www.nawaiwaqt.com.pk/13-Nov-2020/1245218

نصرت جاوید نے کچھ چالاک حکومتی وزرا اور مشیروں کے بارے بھی بیان کیا ہے کہ جنکی چالاکی سے ریاست کے لئے بھی شرمندگی کی وجہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ

تحریک انصاف کے چند بہت ہی کائیاں ’’پالیسی ساز‘‘ مسلسل ایسے حربے استعمال کئے چلے جارہے ہیں جوضرورت سے زیادہ ’’چالاکی‘‘ اختیار کرنے کی وجہ سے فقط ان کی حکومت ہی کو نہیں بلکہ ریاست کے چند ’’ستونوں‘‘ کو بھی شرمندگی سے دو چار کررہے ہیں۔

کالم کے آخری جملوں میں نصرت جاوید نے ایک اور بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے شروع ہوگئے ہیں اور اب بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہے۔ جس کا ابھی تک عمران خان کو ادراک نہیں ہو پارہا۔

عمران حکومت مگر ابھی تک سمجھ نہیں پارہی کہ انگریزی محاورے والا بہت ساپانی پلوں کے نیچے سے گزرچکا ہے۔اب ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے نام پر اپوزیشن کو گھیرا نہیں جاسکتا۔نیب کا دبدبہ بھی قانونِ تقلیل افادہ کی زد میں آچکا ہے۔’’قومی سلامتی‘‘ کے امور سے جڑے معاملات پر اتفاق رائے کے حصول کے لئے اب قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان یعنی وزیر اعظم عمران خان صاحب کی پہل کار ی درکار ہے۔ وہ مگر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کاندھوں پر آئی ذمہ داری ’’کوئی اور‘‘ نبھائے۔ ’’کوئی اور‘‘ مگر ایک حد تک ہی  ‘ آوٹ سورسنگ ‘ کا بوجھ اٹھاسکتے ہیں۔اسد قیصر اس ضمن میں کام آ نہیں سکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*