نظام کو پوری طرح بند کرنا ضروری ہوگیا

Spread the love

: انسائیڈ اسٹوری : 

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے 3 شہروں میں جلسے ہوچکے۔ پنجاب کے شہر گوجرانولہ،سندھ کے شہر کراچی اور بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں۔ دو جلسوں سے لندن میں بیٹھ کر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ویڈیو لنک کے زریعے خطاب بھی کرلیا۔ موجودہ عسکری قیادت کو اپنی تقاریر میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس سے  بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آتی دکھائی دی کہ اس بار بغاوت کیلئے پاک فوج کے جوانوں کے اندر نقب لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فل الحال تو بات بنتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔

اپوزیشن نے رہنماوں کی ابتک ہونے والے تقاریر کا مختصر جائزہ لیا جائے تو جو نتیجہ اخد ہوتا ہے کہ ان کی تان ایک ادارے کی طرف ٹوٹتی ہے۔ جہاں تک عوامی مسائل اور مہنگائی کی بات ہے تو بہت کم اس جانب رخ ہوا۔ 

عمران خان اور انکے لانے والوں ہی پر نشتربازی کی گئی۔ انکو للکارا گیا حتی کہ بلوچستان کو آزاد ریاست بنانے کا بیانیہ بھی ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

ایسی صورتحال میں ریاستی مفادات کی ریڈ لائن کو کراس بھی کیا گیا۔ جبکہ دوسری جانب عمران خان بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ بظاہر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کوئی للچک دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسے میں عوامی دکھوں اور مسائل کا مداوا کون کرے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں موجودہ نظام ہی چلتا رہا تو کچھ حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی مسائل کا حل نکلے گا۔ پارلیمانی نظام کی جگہ چاہئے تو صدارتی نظام آجائے اور چہرے یہی ہوں تو پھر بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

سنئیر صحافی اور تجزیہ کا شاہین صہبائی نے روزنامہ 92 میں ‘ سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کی ضرورت’ کے عنوان سے کالم تحریر کیا ہے۔ انھوں نے بھی اسی جانب اشارہ کیا جو اوپر بات کی گئی ہے۔ 

شاہین صہبائی تجویز کرتے ہیں کہ آجکل ہر بگڑی ہوئی چیز اور شخص کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو رہا ہے مگر سب سے اہم اور فوری طور پر پاکستانی سیاست اور بگڑے ہوئے سیاستدانوں کا اپ ڈیٹ ضروری ہے – یاد رہے کہ سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کے لئے سسٹم کو شٹ ڈاون کرنا ضروری ہوتا ہے۔ 

تو پھر یہ کام سیاسی پارٹیاں اور لیڈر تو کرنے سے رہے پھر باقی دو بڑے ادارے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایک عدلیہ اور اسکی مدد کیلئے فوج اور افسرشاہی۔ پھر ایک قومی ڈائیلاگ انہی اداروں اور ملک سے محبت کرنے والے صاف ستھرے پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان ہونا چاہیے۔ ورنہ تو کوئی امید نہیں کہ حالات کبھی بہتر ہوسکیں۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*