وہ 20 گھنٹے

Spread the love

يہ پنجاب کے ہر دوسرے تيسرے گھر کي کہاني ہے،موقع ملتے ہي يار دوست اکٹھے ہوتے ہيں اور شمالي علاقہ جات کو نکل جاتے ہيں، ويکنڈ پر سير تو معمول کي بات ہے ليکن موسم سہانا ہو يا برف باري کی پیشگوئی ہوتو پورے پورے ہفتے کا پروگرام بنتا ہے،پيسہ بھي ہوتا ہے اور وقت بھي۔ ملک کے بيشتر حصوں سے سياح مري،گليات،سوات، مالم جبہ ،ناران،کاغان اور ايسےہي پرفضا مقامات کا رخ کرتے ہيں ،مري ان سب علاقوں سے قريب تر اور اسلام آباد کے مضافات ميں ہے۔کئي شہروں سے صرف چند گھنٹوں کي مسافت پر ہے،مال روڈ کا چرچا بھي ہے،ہوٹل اور انتظامات بھي مناسب ہيں اسي ليے سياح اس کي سيرکو ترجيح ديتے ہيں ليکن ہم نے آج اس علاقے کو بھي اپني غفلت کي بھينٹ چڑھا ديا۔ايک چھوٹاسا داغ چمکتےدمکتے لٹھے کے سفيد سوٹ کا رعب خاک ميں ملا ديتا ہے بالکل اسي طرح بدقسمتي سے مري ميں ہونےوالے افسوس ناک واقعہ سے ملکي سياحت کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ آنے والے کئي سال يہ اثر انداز ہوتا رہےگا۔آپ اپنے ديس کے چند ہزار سياح نہيں سنبھال سکے دنيا کو کس منہ سے دعوت ديں گے؟

آپ بار بار ذکر کرتے ہيں رياست مدينہ کا۔حضرت عمر رضي اللہ تعالي عنہ نے فرماياتھادریا کنارے کتا بھي پياسا مر گيا تو عمر سے پوچھ گچھ ہوگی۔يہاں درجنوں لوگ شہر اقتدار سے چند کلو ميٹر دور بيس گھنٹے تک مدد کو پکارتے پکارتے موت کي وادی میں چلے گئے اور آپ گرم کمروں اور نرم بستروں پر سوتے رہے۔ برف کی وادی میں موت ناچتی رہی ،ايک باپ اپني آنکھوں کےسامنے بچوں کوسسکتا اور دم توڑتے ديکھتا رہا ، رياست کو پتہ نہ چلا،آپ کس رياست مدينہ کي بات کرتے ہيں۔
اندوہناک واقعے کے اگلےروز حکام يہ دعوے کرتے نہيں تھکے کہ رات سے ہي ان ايکشن ہوگئے تھے،ايک تصوير دکھا ديں جواس رات کوئي افسر امدادي کام کرتا نظر آيا ہو،سنجيدگي کا معيار ديکھيں،سارا ملک سوگوار ہے اور وزرا جگتيں لگاتے ہيں کہ گھروں ميں بيٹھ کر مونگ پھلي کھائيں ايک دوسرے پر سنو اسپرے کريں ۔۔خان صاحب کس رياست مدينہ کي بات کرتے ہيں آپ؟
مري ميں سياحوں کا رش ہر سال ان دنوں ميں معمول کي بات ہے، ٹويٹ پر ٹويٹ داغ کر حکومتی رتن کريڈٹ ليتے رہے ليکن آپ تين سو پينسٹھ دنوں ميں تيس دن کےرش کي پلاننگ بھي نہ کر سکے اور اب سانپ گزرنے کے بعد لکير پيٹ رہے ہيں ؟پنجاب کےجس حکمران کو ايک ہفتہ پہلے ہي تمام ضروري انتظامات کرلينے چاہيے تھے وہ قيامت ٹوٹنے پر بھي خواب غفلت سے نہ جاگا،ميڈيا نے چيخ چيخ کربتاياتوياد آيا کہ مري ميں بھي کچھ ہوا ہے،کس رياست مدينہ کي بات کرتے ہيں آپ؟

ملک کے چيف ايگزيکٹو کو ہر واقعہ کے بعد ” صدمے یا افسوس”  کا ٹويٹ کرنا ياد آجاتا ہے
نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا شہر کي آبادي ايک حد سے بڑھنے لگے تو نيا شہر آباد کر ليں،مري ميں ہر سال اس طرح کا رش ہوتا ہے،ہزاروں نہيں لاکھوں افراد ملکہ کوہسار کا رخ کرتے ہيں اس کيلئے جامع منصوبہ بندي کب ہوگی،لانگ ٹرم پلاننگ اپني جگہ شارٹ ٹرم پلاننگ کے تحت ہي راستوں کو محفوظ بنا ديں ،سڑک کنارے ہر کلو ميٹر بعد ٹيلي فون بوتھ لگا ديں جس سے ہنگامي صورتحال پر رابطہ کرنےوالي کي لوکيشن معلوم ہوجائے۔۔اپني تشہير پر کروڑوں روپے اڑانے کي بجائے آگاہي مہم چلا کر ايسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔۔قدرتي آفات کے سامنے کسی کا بس نہیں ليکن مناسب تدابيرکرنا بھي حکومتوں کا ہي کام ہے،کہنے کو لکھنے کو اور بھي بہت کچھ ہے ،دل رنجيدہ ہے اور خون کے آنسو رورہا ہے ليکن کسے کہيں؟استاد محترم حافظ انوار صاحب نے چار لفظوں ميں سانحہ مري کا خلاصہ بيان کر دياریاست ہار گئی۔۔۔موت جیت گئی۔۔۔۔

: تحریر ” اویس احمد ” :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*