الوداع جوہر ی فصیل گر (ڈاکٹر عبدالقدیر خان)

Spread the love

: تحریر  ” میاں جہانزیب نورپوری ” : 

کل رات گئے ریختہ کے برقی دریچے کے صفحات پر نداؔ فاضلی کے اشعار پڑھتے ہوئے ایک شعر نے ذہن پر ذرا زور دار دستک دی ۔
؎ بدلنا چاہو تو دنیا بدل بھی سکتی ہے
عجب فتور سا ہر وقت سر میں رہتا ہے
خیالات کی یورش نے دل کو یہ ہی صلاح دی کہ ایسا فتور رکھنے والے آخر کار زمانے کے مروجہ سانچے میں ہی ڈھل جاتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت نے سوچ کا اک نیا رخ دکھایا۔ بلا شبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان گنے چنے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے دنیا کو پاکستان کے حوالے سے بدل دیاَ۔ ان کی زبانی اور اوروں کے بیان کردہ حقائق ان کے سر میں وطن عزیز کو ناقابل تسخیر بنانے کے فتور کا پتہ دیتے ہیں۔
دنیا کی جدید ترین جامعات ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن، ڈیلف اور کے یو لیون سے تعلیم اور ایک جدید ترین شعبے میں ملازمت کے بعد وطن عزیز کو “جوہر” بلونے کی حرفت سے لیس کیا۔ تو انتظار ملامت میں بیٹھے دریدہ دہن جہلاء نے طرح طرح الزام اور تہمتوں سے ان کی ذات پر سنگ باری شروع کردی۔ مگر ان کی اس عظیم ترین خدمت نے پاکستان کے شجاع تریں سربراہ کو اس قدر اعتماد دیا کہ وہ غنیم کو اس کی زمین پر اسے ملیا میٹ کردینے کی اطلاع دے آیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب عملے اور زیر تکمیل منصوبہ جات کی ضروریات کو سمجھنے اور وسائل کو درست طرح سے برتنے والے بہترین منتظم تھے۔ ان کے ہم عصر اور پیشہ ورانہ حریف اس صفت سے مکمل خالی ہیں۔
راوی کے مطابق سعودی مقتدرشخصیت کو جب اپنی کارگہ میں 72000 فی سیکنڈ کی رفتار سے جوہر بلوتی ہوئی مدھانیوں کا نظارہ کروایا ۔ اور اس کو جتلایا کہ آپ واحد غیر ملکی ہیں جن کو یہاں تک ہم نے رسائی دی – تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں نے شائد اس احساس اور اعزاز سے بہہ جانا غنیمت جانا کہ
؏ وے سانوں سو مکئیاں دا حج ۔
9 ستمبر 2001 کو امریکہ میں دو عمارات کیا گریں کہ وطن عزیز پر عجب گھڑی آن پڑی ۔ جس میں سونا صفت لوگ پیتل ہوگئے اور کاٹھ کباڑ کو سونا سمجھ لیا گیا۔ گیارہویں صدی میں سلطان ملک شاہ سلجوقی اور نظام الملک طوسی کے بعد عظیم سائنس دان، ماہر فلکیات اور ریاضی دان عمر خیام سے اس کا مرتبہ چھین لیا گیا تھا۔ اور اس نے بقایا عمر رباعی کہنے میں بسر کردی۔ تاریخ نے تقریبا 1000 برس بعد پھر سے اپنے آپ کو اسی مقام پر لے آئی تھی۔ وقت نے اس دفعہ عمر خیام کی جگہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا انتخاب کر لیا تھا۔ ان کے ملک شاہ ، جنرل محمد ضیاءالحق جان سے اور نظام الملک ، غلام اسحاق خان اقتدار سے جا چکے گئے تھے۔ نئے صاحبان اختیار مردم شناسی کی صفت سے مکمل طور پر عاری تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو ہر لمحہ ایک نئے آسمان کی تلاش میں رہتے تھے ، اس ناقدری کی لپیٹ میں آگئے۔زندگی کی آخری دو دہائیاں ان کی کڑی حفاظت میں ہی گزری ۔ کیا ہی بہتر ہوتا اس تاج محل سے قیمتی دماغ کو وطن عزیز کی کوئی صنعت وحرفت کی ترویج کے متعلقہ ذمہ داری سونپ دی جاتی۔ تمام اہل پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آئندہ نسلوں تک مشکور رہیں گے ، جن کی بدولت ہم کم ازکم عسکری اعتبار سے کسی بھی دشمن کے لئے تر نوالہ نہیں ہیں۔
پس تحریر؛ حسب معمول کچھ بجو فطرت افراد اپنے تئیں اس مثل آفتاب ہستی کا کفن نوچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دو سو برس بعد بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان موضوع بحث رہے گا۔ اور تمھاری موت کے اگلے دن بھی تمھیں کوئی یاد نہیں رکھے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*