سائیں آیا جے

Spread the love

 

:  ”  تحریر ”  میاں محسن بلال  :

سائیں آیا جے، سائیں آیا جے۔ جونہی یہ آواز گلی میں لگنا شروع ہوتی ہے تو گھروں میں موجود بچے متوجہ ہونا شروع ہوتے ہیں۔ یہ آواز سر میں ہوتی ہے۔ مائیں  بھی سریلی آواز سن کرکام کرتی رک جاتی ہیں۔

بچوں سے کہتی ہیں زرا ٹھہرو۔ اپنی حیثیت کے مطابق کوئی 10 کا اور کوئی 20 کا نوٹ بچوں کو تھماتی ہیں۔ بچے بھی سر میں کہتے ہیں کہ ” سائیں آیا جے ،،، سائیں آیا جے ” ۔ پھر گلی میں جاتے ہیں۔ سائیں کو پیسے پکڑاتے ہیں اور اسکے ساتھ دوبارہ سر میں کہتے ہیں ” سائیں آیا جے ” ۔ سائیں یہ کہتے کہتے گلی کی نکر سے اوجھل ہوجاتا ہے اور بچے بھی سر میں آواز لگاتے لگاتے گھر آجاتے ہیں۔

یہ تحصیل سمبڑیال کے محلہ ” نورپورہ ”  کی ایک گلی کے گھروں کے بچوں کی  کہانی نہیں بلکہ جس گلی میں بھی سائیں جاتا ہے۔  ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔ سائیں عام مانگنے والوں سے زیادہ پیسے اکٹھے کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔

گلی محلوں میں جو عام مانگنے والے ہیں انکے پاس کچھ نیا کرنے کو نہیں۔ روایتی انداز ہی میں دعائیں دیتے ہیں اور سب کی آوازیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ 

زیادہ تر یہاں سے شروع کرتے ہیں۔ اللہ آپکا بھلا کرے۔ اولاد نیک کرے۔ شوہر کو ترقی دے۔ گھر میں خوشیاں رہیں۔ 

ایک گروہ ایسا بھی ہے مانگنے والوں کا جو دو  دو کی صورت نمودارہوتا ہے۔ ایک نے  صحت سرٹیفکیٹ پکڑا ہوتا ہے۔ جس کے اوپر کوئی نہ کوئی بیماری درج ہوتی ہے اور اس کے علاج کیلئے پیسے مانگتے ہیں ۔

ایک گروہ صرف روٹی اور آٹا مانگتا ہے۔ یہ ہر محلے کے خاندانی مانگنے والے ہوتے ہیں جو گھروں کے اندر بھی آکر بیٹھ جاتے ہیں انکو گھر کے  ہر فرد اور اسکے اباو اجداد کا بھی علم ہوتا ہے۔

کسی ہفتے وہ نہ آئیں تو گھروں میں موجود بزرگ کچھ کمی سی محسوس کرتے ہیں۔ 

ان روایتی مانگنے والوں کی جانب بچے متوجہ نہیں ہوتے۔ اگر وہ متوجہ ہوتے ہیں تو سائیں کی جانب ۔ کیونکہ سائیں نے نیا ٹرینڈ متعارف کرایا ہے۔ اگر ماں یا والد  گھر میں موجود ہوں اور سائیں کو  ۱۰ کا نوٹ دینے کا دل نہ بھی کرے تو بچے ضد کرکے جیب سے نکلوا لیتے ہیں۔

سائیں جی، یوں روایتی مانگنے والوں سے زیادہ کمائی کرتے ہیں اور انکا ٹھیکیدار بھی خوش ہوتا ہے کہ چلو اسکی جیب تو گرم ہو رہی ہے۔ 

ہمارے ملک کی سیاست میں بھی نئے نئے ٹرینڈ متعارف ہوئے۔ ہر لیڈر اپنا نعرہ لیکر آیا۔ لیڈر بنانے کے پیچھے جو سوچ کارفرما رہتی ہے وہ اپنی قوم کی نفسیات کو خوب جانتی ہے۔ روایتی طریقہ کرنا ہو تو خوفزدہ کرتی ہے ورنہ سر لگاواتی ہے۔  

آپ سمجھ لیں کہ روایتی مانگنے والے جو تھے۔ انکی اصلیت کی پہچان ہوگئی۔ محلے والے تعلق کی بنیاد پر کسی کو خیر ڈال دیتے اور کام چلانے والوں کا کام چل جاتا جنہوں نے ٹھیکے پر گلی محلے تفویض کئے ہوتے انکا۔ فلاں سے فلاں علاقہ اور فلاں محلہ تمھارا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

پھر ہمارے یہاں سائیں کو متعارف کروایا۔ جس نے گھاگ قسم کے افراد کو تو متوجہ نہ کیا لیکن معصوم بچے سر کے چکر میں آگئے۔ ان بچوں کی دیکھا دیکھی کچھ موسمی پرندوں کو بھی ” سائیں آیا جے ” کا سر پسند آگیا۔

محلہ نور پورہ کے بچے جب تھوڑے بڑے ہونگے تو انکو ” سائیں آیا جے ” کی سمجھ آنا شروع ہوجائے گی اور شاید وہ پھر متوجہ ہونا چھوڑ دیں۔

پھر نیا ٹرینڈ متعارف کروایا جائے گا۔ نئی پروڈکٹ مارکیٹ میں لائی جائے گی۔ سر اور سنگیت کے کیساتھ۔  

پاکستان کی سیاست میں نئے سائیں کی بازگشت ہوگی۔ بچے متوجہ ہونگے۔ 

لہذا موجودہ تبدیلی کا مزہ لیجئے فی الحال اور ” سائیں آیا جے ” کے سر سے لطف اندوز ہوں۔ ٹیکس پہ ٹیکس دیں۔ مہنگائی میں مزید اضافے کا انتظار کریں۔ اور ہاں  بچوں کی طرح تبدیلی کے علمبردارجس شے کی ضد کریں اسکو تھما دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*