ایک اور سیاسی بساط،،، قبل ازوقت انتخابات

Spread the love

 

:  ‘ تحریر ‘ میاں محسن بلال  :

شطرنج دنیا کا ایسا انوکھا کھیل ہے، جسکے ہر خانے میں لامحالہ چالوں کی گنجائش رہتی ہے،64 خانوں کی بساط پر کی جانے والی ایک پیش قدمی، چال چلنے کے لاکھوں مواقع پیدا کرتی ہے۔ دونوں جانب سے بہترین چالوں کے باوجود ،، کبھی کبھار یوں بھی ہو سکتا ہے کہ پوری بساط سے ایک فریق یکطرفہ طور پر مستفید ہو۔ اتنا مسفید کہ دوسرے کے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سٹیل میٹ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے، یعنی بساط پر دونوں فریق کے پیادے تو موجود ہوں لیکن کھیلنے کو کوئی چال نہ بچے اور کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا ہے کہ دونوں بادشاہ آمنے سامنے آ کر کھیل جیتنے کا امکان سرے سے ہی ختم کر دیتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر 64خانے اور لاکھوں چالیں ،،، بساط کے متعین کردہ اصولوں کے اندر رہ کر ہی چلی جاتی ہیں۔
شطرنج اور اسکے رہنما اصول تو کھیل کی ایجاد کے ساتھ ہی وجود میں آئے ہونگے لیکن ،، تاریخ انسانی میں شطرنج کے قوانین شاید اسوقت سے قائم ہیں جب دنیا کے پہلے شخص کا حق حکمرانی کا دعویٰ کسی دوسرے نے چیلنج کیا۔ یوں سیاست کا طریق اور ریاست کے رواج نے بھی جنم لے لیا۔ تب سے آج تک ،،، سیاست کی بساط ہے، کھلاڑیوں کے چونسٹھ خانے اور لامحالہ چالیں ہیں۔

پاکستانی سیاست یوں تو شطرنج کے مروجہ اصولوں کی طرح ایک متفق آئین کی تابع ہے۔ لیکن ہر کھلاڑی اپنے آپ میں یکتا اور اپنی چالوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ کوئی چاہتا ہے کہ مخالف کو چند ہی چالوں میں شہ مات ہو جائے،، کوئی سٹیل میٹ کی صورتحال پیدا کرنے کا خواہاں ہے اور کسی کا ارادہ ہے کہ دونوں بادشاہ آمنے سامنے کچھ یوں آ جائیں کہ دونوں کے جیتنے کا امکان ہی متروک ہو جائے۔

اب کہ جو کھیل سجا ہے،، وہ ویسا ہی ہے جو ہماری پچھتر سالہ تاریخ میں بار بار ہوتا آیا ہے۔ لیکن مروجہ آئین کے تابع ،، بس نئی چالیں آزمانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تین سالوں سے عمران خان اپنے حصار کے دفاع اور وقتا فوقتا جارحیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تمام روائتی سیاستدان ایک جانب ہیں اور وزیراعظم دوسری طرف۔ گیارہ جماعتوں کا یہ اتحاد اپنی تما تر توانائیوں کے باوجود کامیابی کے قریب قریب نہیں پہنچ پا رہا۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ مہنگائی کا آسیب ہر منڈیر پر بیٹھا ہے،، بے روزگاری ہر گھر سے باہر جھانک رہی ہے،،، لاقانونیت نے باہر نکلنا مشکل کر دیا ،، وزراء بدعنوانی کا سکور بنا رہے ہیں، افسر شاہی راستے آسان کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے،، رہی سہی کسر اتحادیوں کی فرمائشیں پوری کر رہی ہے ،،، پھر بھی ،،، عمران خان ہیں کہ انکا کچھ نہیں بگڑ رہا،،، ہر چال پر کمزور ہونے کے بجائے،،، وہ ہر خانے میں مزید طاقت سے آگے بڑھ رہے ہیں۔

مخالفین کا عالم یہ ہے کہ تین سال کی مزاحمت نے شاید انہیں تھکاوٹ سے دو چار کر دیا ہے۔ رفتہ رفتہ حزب مخالف کیمپ نے صبر کا دامن تھام کر تسلیم کر لیا ہے کہ عمران خان حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ سندھ کے بادشاہ گر آصف زرداری گوشہ نشینی میں ہیں،، گو انکے جانشین بلاول بھٹو جوش جوانی کے تقاضے پر جلسہ جلسہ کھیل رہے ہیں۔ نون لیگ کے بڑے میاں ملک سے باہر ہیں ،، ملک میں موجود انکی ہم خیال بیٹی مریم نواز نے جزوقتی طور پر اپنے کھیل کا پردہ گرا رکھا ہے۔

چھوٹے میاں شہباز شریف اور صاحبزادے حمزہ شہباز جماعت کی تنطیم سازی کے نام پر خود کو توانا رکھنے کیلئے تھوڑی بہت کوشش کر رہے ہیں۔ رہے مولانا تو وہ اپنے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کیلئے طلسم پھونک رہے ہیں۔

لے دے کے ،، بساط پر بچتے ہیں ،، کھلاڑی دو ،، ایک حکومت اور دوسرے اتحادی ۔ اتحادی قاف لیگ خواہاں ہے کہ انکا حلقہ اثر بڑھے۔ سکڑتی سیاست پر پھیلائے۔ یہی وجہ ہے کہ قاف لیگ پنجاب کے سات اضلاع کو اپنی مٹھی میں کرنے کے لئے داؤ پیچ لڑا رہی ہے۔

حکومتی جماعت تحریک انصاف انتظامی طور پر کمزور سہی،،، سیاسی پوزیشن قدرے مستحکم ہے۔

اب جبکہ سیاست میں ہلچل نہیں ہے،، قریب قریب کوئی ضمنی انتخاب نہیں ،، بلدیاتی الیکشن سرد خانے میں پڑے ہیں۔ نہ تو احتجاجی مظاہرے ہیں ،، نہ جلسوں کے سٹیج سجے ہیں،، نہ ہی جلوسوں کی گہما گہمی۔ کیا یہ قیاس کیا جائے کہ سب چین ہی چین ہے،، تغیر کو کچھ باقی نہیں۔ ؟

ایسا نہیں ہے ،، اور شاید ہی ،، یہی سب سے بڑی خبر ہے !
ایک بڑا معرکہ جسکا ہر سیاسی جماعت انتظار کر رہی ہے اور صرف انتظار ہی نہیں دامے درمے قدمے سخنے ،، ہر طرح سے اس معرکے کی تیاری میں سرگرم ہے۔ سیاست کا یہ بڑا معرکہ ہے ،،، عام انتخابات۔

آپ سوچ رہے ہونگے کہ عام انتخابات تو ہونے ہیں اور ہو کر رہیں گے ،،، اس میں خبر کیا ہے؟

تو خبر ہے ! قبل از وقت انتخابات۔
ایک نجی محفل میں ایک حکومتی مشیر نے اپنے خیالات کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قائد نے پارٹی کو قبل از وقت انتخابات کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنے کی ہدایات دے دی ہیں۔۔ حکومتی مشیر کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیراعظم سال دوہزار بائیس کے وسط میں اسمبلیاں تحلیل کر کے عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیں۔۔ مسلم لیگ نون نے مرکزی رہنما رانا ثناءاللہ بھی میڈیا نمائندوں سے کئی بار سے اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کسی بھی وقت عام انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔۔۔
رانا ثناء کے خدشے کے علاوہ اسکی حمایتی دلیل ایک اور رہنما نے بھی دی ہے۔ مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق کا بھی دعویٰ ہے کہ حالات ایسا رخ اختیار کر لیں گے کہ عام انتخابات قبل ازوقت ہو جائیں۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھایا اور یہ بھی دعویٰ کیا کہ

آئندہ عام انتخابات ستمبریا دسمبر 2022 اور مارچ 2023 کے درمیان ہونگے۔

یہ بھی کہ عمران خان کسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کرسکتے ہیں۔۔ انہوں نے پیش گوئی کی کہ قبل از انتخابات کی صورت میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ پیپلزپارٹی نے جو این آر او لینا تھا وہ پی ڈی ایم میں کردار ادا کرکے لے چکی ہے۔

 عوامل: جنکی وجہ سے قبل ازوقت انتخابات ہوسکتے

دعووں اور پیش گوئیوں سے قطع نظر ،،، آخر وہ کونسے حالات ہیں ،، جو قبل از انتخابات کی راہ ہموار کر سکتے ہیں؟ معتبر زرائع اسکی دلیل دیتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو قبل از وقت انتخابات کروانے کے لئےاس لئے قائل کیا گیا ہے کہ ستمبر 2023 میں سینیارٹی لسٹ کے مطابق قاضی فائز عیسی پاکستان کے چیف جسٹس ہونگے۔عام انتخابات مقررہ مدت پر ہوئے تو نومبر 2023 میں ہونگے۔ یوں قاضی صاحب عام انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ حکومتی حلقوں کو اس ضمن میں قاضی صاحب کے ہاتھوں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ معطل ہونے کا کھٹکا ہے۔ نواز شریف اگرچہ باہر ہیں ،، لیکن حکومت آج بھی انہی کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ گردانتی ہے۔
عدلیہ کے سربراہ کی تبدیلی کے علاوہ موجودہ ملٹری قیادت کا تسلسل بھی قبل از عام اتخابات کی راہ ہموار کرنے میں معاون ہو گا۔ خطے میں صورتحال بدل رہی ہے،، اور کیانی ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے ،، اس بدلتی صورتحال کے پیش نظر ،، یہ بعید از قیاس نہیں کہ موجودہ عسکری چیف کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی جائے۔ یوں 29 نومبر 2022 کو ختم ہونے والی مدت نومبر 2023 تک جا پہنچے۔
اس تناظر میں ،، حکومتی مشیر کے برملا اظہار،، رانا ثناء کے خدشات اور اعجاز الحق کے قبل ازوقت انتخابات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
دوستو ،، شطرنج کے کھیل کی ساری چالیں جان بھی لی جائیں تو ،، بطور کھلاڑی ہمارے وزیراعظم کا ایک ٹریک ریکارڈ بھی ہے۔ انہیں اکثر اوقات نتائج سے بے پرواہ ہو کر اچانک اور بڑے فیصلے لینے کی عادت ہے۔ بعض اوقات وہ ایسی چال چل جاتے ہیں کہ انکا کیمپ ہی ہکا بکا رہ جاتا ہے۔

یہاں سب سے اہم معلومات ،،، شطرنج کے 16 مہروں میں سب سے طاقتور ملکہ ہوتی ہے۔ وہ بادشاہ کے برعکس کسی بھی خانے میں حرکت کر سکتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی مہرے پر چھلانگ لگائے بغیر وہ شطرنج کے کسی بھی خانے میں جا بیٹھنے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔

دوسری طرف بساط پر بادشاہ کی موجودگی شطرج کا بنادی اصول ہے، اسکی حیثیت ایک مہرے کی سی ہوتی ہے،، چال محدود اور ایک وقت میں ایک خانے میں ہی حرکت کر سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*