کراچی اور سروسز سیلز ٹیکس

Spread the love

: تحریر، لالہ صحرائی :

اٹھارہویں ترمیم سے قبل سروسز سیلز ٹیکس ایف۔بی۔آر کی جیورسڈکشن میں تھا، تب مرکز نے اس مد میں سندھ سے آخری کلیکشن چودہ ارب کے قریب کی تھی۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ ریوینیو بورڈ نے نہایت محنت سے اپنا دائرہ کار وسیع کیا ہے، جس کے نتیجے میں اب تقریباً ساٹھ ارب روپے سالانہ ریوینیو ملتا ہے جس کا بنیادی محور کراچی شہر ہے یعنی یہ ٹیکس آلموسٹ کراچی شہر کی ہی دین ہے۔
اہل کراچی کو مرکز کی طرف دیکھنے کی بجائے سندھ کی صوبائی حکومت سے حساب مانگنا چاہئے کہ جس شہر سے اتنا بڑا ریوینیو اکٹھا کرتے ہیں اس کی صحت، صفائی ستھرائی، پانی اور سیوریج کا تسلی بخش انتظام کیوں نہیں کرتے؟
مرکز کی طرف سے این۔ایف۔سی ایوارڈز صوبوں کو ہمیشہ آئینی فارمولے کے تحت ملتا رہا ہے، اٹھارہویں ترمیم میں دیگر مطالبات بھی پورے ہو چکے ہیں لہذا مرکز اور پنجاب پر سنگ باری کی کوئی گنجائش گزشتہ دس سال سے بالکل بھی موجود نہیں۔
کراچی کی عوام کو گفت و شنید کے ذریعے صوبائی حکومت کیساتھ اپنا لین دین کا تعلق بہتر اور مفید سطح پر لانا چاہئے، یہ نہ صرف وقتی ضرورت ہے بلکہ مستقبل کی شہری سہولیات بھی اسی نظام سے وابستہ ہیں لہذا اس تعلق کو نافع سطح پر لانے کیلئے کافی اور مسلسل گفت و شنید کی ضرورت ہے تاکہ صوبائی حکومت اپنے کلیکشن زون کی بہتری کیلئے ضروری خدمات انجام دینے پر آمادہ ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارکردگی کے حوالے سے دیکھا جائے تو مملکت کے تمام صوبائی ریوینیو بورڈز میں سندھ ریوینیو بورڈ اپنے سادہ، سہل اور کو۔آپریٹیوو نظام کی بدولت کارکردگی میں سب سے بہتر اور ریوینیو کلیکشن میں بھی سب سے آگے ہے، دوسرا نمبر پنجاب ریوینیو بورڈ کا ہے۔
مگر ایس۔آر۔بی کا سارا زور سروسز ٹیکس پر ہے جو شہری علاقوں سے ملتا ہے اور ایگریکلچرل ٹیکس کی کلیکشن پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پنجاب ریوینیو بورڈ ایگریکلچرل ٹیکس کی کلیکشن میں سب سے بہت بہتر ہے۔
ایف۔بی۔آر کو بھی ٹیکس نیٹ براڈننگ کے سلسلے میں سندھ ریوینیو بورڈ سے کچھ سیکھنا چاہئے کہ ایک نئے ادارے نے کس طرح محض دس سالوں میں اپنا ٹیکس نیٹ اتنا بہتر کر لیا ہے کہ جس ٹیکس کی کلیکشن صرف چودہ ارب روپے تھی، وہی اب ساٹھ ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔
بہت سے سیکٹرز میں اس ادارے کو مرکز اور کچھ پرائیویٹ اداروں کیساتھ ہائیکورٹ لیول پر مقدمات بھی لڑنے پڑے ہیں، ان میں پورٹ سروسز، سٹیوارڈز اور کارگو وغیرہ شامل ہیں، مجھے ان کیسز کی تفصیلات معلوم نہیں مگر اکانومی کے مطالعات کے دوران سرسری طور پر ایسی خبریں ملتی رہی ہیں۔
کمیشن انکم اور پراپرٹی کی رینٹل انکم کو بھی انہوں نے سروسز قرار دے کر لینا چاہا تھا کیونکہ پراپرٹی ٹیکس بھی صوبہ ہی وصول کرتا ہے اسلئے وہ پراپرٹی انکم اور کمیشن انکم کو بھی سروسز قرار دیکر اس پر اپنا حق جتاتے تھے، مگر پتا نہیں اس کا فیصلہ ان کے خلاف ہو چکا ہے یا ابھی پینڈنگ ہے کیونکہ یہ دونوں ٹیکس فی الحال مرکز ہی وصول کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیکس گزاروں کی سہولت کیلئے یہ بھی بتاتا چلوں کی اپنی انکم ٹیکس ریٹرن میں جو لوگ زرعی آمدنی دکھاتے ہیں تاکہ ویلتھ اچھی ڈویلپ ہو جائے انہیں یہ نکتہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ صوبائی حکومتیں بیشک ابھی زرعی ٹیکس کی کلیکشن کیلئے سرگرم عمل نہیں ہیں لیکن ایف۔بی۔آر کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ آپ کی زرعی آمدنی کا ثبوت مانگ سکے۔
اگر آپ یہ ثبوت دینے میں ناکام ہو گئے تو ایف۔بی۔آر اس ظاہر کی گئی زرعی آمدنی کو ٹرپل۔ون سیکشن کے تحت ان۔ایکسپلینڈ انکم، یعنی خفیہ آمدنی قرار دیکر قانون کے مطابق اس پر ٹیکس اور جرمانہ وصول کر سکتی ہے جو چھوٹی اور بڑی رقوم پر تقریباً بیس سے پچاس فیصد تک بن جاتا ہے۔
سندھ میں ایسا رجحان بہت دیکھنے میں آیا ہے کہ ٹیکس گزار اپنی آمدنی پر ٹیکس بچانے کیلئے بڑی موٹی موٹی رقوم زرعی آمدنی میں ڈال لیتے ہیں کیونکہ صوبائی بورڈ اس پر ٹیکس لینے میں سست ہے اور اگر مانگ بھی لے تو زرعی ٹیکس کی رقم انکم ٹیکس سے بہت ہی کم بنتی ہے لہذا ڈیوسٹیٹنگ ہو رہی ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہئے ورنہ ایف۔بی۔آر کی ری۔ایسسمنٹ سے بچ نہیں سکیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*