عالم برزخ میں حالات حاضرہ کی نشست

Spread the love

: تحریر: میاں محسن بلال 

 ملکی صورتحال سمیت علاقائی صورتحال بھی بہتر نہیں۔ کپتان حافظ سے ملاقات کا خواہش مند ہے اور خافظ ” منزل ” یاد کر رہا ہے۔ مودی دھمکیاں لگاتا پھرتا ہے۔ جنرل صاحب۔ آپ نے اس کا امریکہ میں انڈین اورسیز سے خطاب سنا۔ کہتا ہے ” پاکستان کو اپنی موت مرنے دو “۔ اسلامی جہموریہ پاکستان میں  اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی بھارتی وزیر اعظم دھمکی دے اور اسکا جواب دینے والا ہی کوئی نہ ہو۔

  تاہم جب آپ تھے تو انڈیا کی کبھی جرات نہیں ہوئی تھی بلکہ الٹا خود اسکو ٹکرے ٹکرے ہونے کا ڈر تھا۔ جنرل صاحب اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے اور پاس بیٹھے جنرل حمید گل کو دیکھا۔ جو موبائل ہاتھ میں پکڑے کپتان کا بڑے مگن سے خطاب سن رہے تھے۔ پھر جنرل صاحب نے ہلکی سی سانس لی۔ بولے ارے عبدالرحمن چھوڑو ” مودی کی دھمکی کو” نظر انداز کر دو۔

تم یہ بتاو ملکی سیاست کیا کہہ رہی ہے؟ یاد آیا کہ اعجاز نے تو نو مئی  کے واقعہ کے فوری بعد ہی لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا تحریک انصاف سے۔ اللہ کی کرنی یہ ہوئی کہ اعجاز اس وقت ملک سے باہر تھا۔ مجھے دوبارہ بتایا گیا ہے کہ اب اس نے اپنی جماعت کا اتحاد بھی ختم کردیا ہے۔ ابھی تک بیٹے ہمایوں اختر کی کوئی خیر خبر نہیں ہے؟ لگتا ہے بہت بہادر ہے جو کپتان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا ہے۔

جنرل عبدالرحمن نے جنرل ضیاء الحق کو بتایا نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہمایوں نے بڑی طویل مشاورت کی اپنے سمدھی ” میر شکیل الرحمن ” سے۔ میر شکیل نے انکو مشورہ دیا کہ ہمایوں صاحب ہواوں کا رخ دیکھیں اور کشتی سے کود لیں۔ ہمایوں نے مشورہ مان لیا اور تحریک انصاف کی کشتی سے چھلانگ لگا دی ہے۔

 

جنرل ضیاء الحق: چلو یہ تو اچھا ہی کیا۔ لیکن اس کو خواب میں ملو تو یہ تجویز کرنا کہ ابھی قومی ترانے والوں کی پارٹی میں جانے کی جلدی نہ کرے۔ وہ نہ ہو رشتوں کی رومیں  بہہ جائے۔ میں نے اعجاز سے بھی یہی سرگوشی کی ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل عبدالرحمن کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ جنرل حمید گل نے موبائل بند کیا، سر اٹھایا اور مایوسی کے عالم میں سرد آہ بھری۔

کیوں بھائی حمید کیا ہوا؟ کیوں خطاب سن کر پریشان ہوگئے ہو۔ کیا ” ایمی ” نے پھر کوئی نیا دھماکہ کردیا یا کسی بات سے پھر یوٹرن لے لیا؟

نہیں جنرل صاحب ایسی بات نہیں ہے۔ آپ اور جنرل رحمن اعجاز اور ہمایوں کی بات کر رہے تھے تو میں اپنے سپوت ” عبداللہ گل ” بارے فکر ہوئے جا رہا تھا۔ جنرل ضیاء الحق: کیوں کیا ہوا؟ عبداللہ کو۔ ماشاء اللہ بڑا ہونہار بچہ ہے۔ اب تو ریاست کے اسرار و رموز بھی کافی اچھی طرح سے سیکھ چکا ہے۔ کچھ اہم شخصیات سے اسکے روابط بھی ہوگئے ہیں اور تو اور تقریر بھی اچھی کر لیتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ انداز میں تم کو کاپی کرتا ہے۔

بھائی تمھاری ایک مضبوط ورثہ ہے۔ ہمارے دور میں تو ” ایمی ” کرکٹ ٹیم کا کپتان ہوا کرتا تھا۔ سیاست میں اسکو لانے کا سارا کریڈٹ تو تم کو جاتا ہے۔ یہ عام ورثہ تو نہیں۔ جنرل حمید گل: آپ درست کہہ رہے ہیں مگر عبداللہ ۔۔۔

جنرل ضیاء الحق: کیا عبداللہ؟ ” حمید بچے ” کھل کر بتاو جنرل صاحب ، وہ خامخواہ ” ایمی ” کے بیانیے کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ تقاریر کرتا رہتا ہے۔ بہت بولتا ہے۔ اکثر اس کے ٹویٹ بھی ” ایمی ” کے خلاف ہی ہوتے ہیں۔ لوگ کیا سوچیں گے کہ والد کی وراثت کو کیسے یہ بیٹا آگے لیکر چل رہا ہے؟ بس فکر لگی رہتی ہے ” ایمی ” کا کیا بنے گا؟

جنرل صاحب سپہ سالار جنرل حافظ عاصم منیر بارے ہی آپ ہماری رہنمائی فرمائیں ؟ آپ ہی کے دور میں وہ افواج پاکستان کا حصہ بنے اور ” اعزازی شمشیر ” حاصل کی۔ کچھ مزید بتائیں۔۔۔ اب جنرل ضیاء الحق کچھ بتانے ہی لگے تھے کہ زوالفقار علی بھٹو اپنی دختر بے نظیر بھٹو کا ہاتھ پکڑے انکی طرف آتے دکھائی دیئے۔ بھٹو صاحب بڑا تیز تیز چل رہے تھے اور کافی زیادہ پریشان تھے۔ ماتھے پر پیسنہ تھا۔

جنرل ضیاء الحق کو لگا کہ شاید ان سے کوئی اور غلطی ہوئی۔ خدا خیر کرے۔ بھٹو صاحب جونہی انکے پاس پہنچے جنرل ضیاء الحق انکو کہا ” بھٹو صاحب ” تشریف رکھیں کیا۔ زوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو صوفے پر بیٹھ گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے پوچھا بھٹو صاحب خیر تو ہے؟ بھٹو صاحب بولے کیا بتاو ‘ پنکی ” کا شوہر آج کل  معیشت کو لیکر بہت بڑی بڑی  باتیں کر رہا ہے۔ نواسہ ہے کہ وہ ہر وقت سونے والے حلیے میں رہتا ہے۔ وزیر اعظم کے خواب ہیں کہ دیکھ رہے ہیں۔ میری وارثت کو لیکر چل رہے ہیں مگر لباس اور انداز سے کیا لگتا ہے کہ نانے پر گیا ہے؟

دور بیٹھے ” میاں شریف ” ان سب کو دیکھ رہے تھے اور کھسیانی بلی کی طرح مسکرا رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے انکی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ جنرل ضیاء سے مخاطب ہوئے کہ اس میاں شریف کو دیکھ رہے ہو۔ جس کے بیٹے کو تم سیاست میں لیکر آئے۔ اس کے چھوٹے لال کہ کام دیکھو۔ دنیا بھر میں ” مینگو مینگو ” کرتا پھرتا ہے۔ جدھر جاتا ہے آم ،،، آم بھیجو گا۔۔۔ کھلاوں گا۔ طیب اردگان تو حیران ہی ہوگیا۔

 

ضیاء اس سے اچھا تو نواز ہے کہ چلو ” پرچی ” دیکھ کر پڑھتا ہے شعبدہ بازی تو نہیں کرتا ۔  کسی ملک کے وزیر اعظم کو ایسی شبعدہ بازی کیا زیب دیتی ہے؟ خیر چھوڑو۔۔۔ ہمارے داماد کی ایک اور سن لو۔۔۔ پہلے مشہور تھا اک زرداری سب پہ بھاری ۔۔۔ اب اک زرداری سب سے یاری۔۔۔ سب سے یاری میں سندھ بچ گیا باقی سب لٹا دیا۔

یار ضیاء یہ مفتی محمود کا سپوت ” مولانا فضل الرحمن ” بڑا شریر ہے۔ فتح محمد بندیال کے لونڈے ہی کو پڑ گیا۔ ہتھوڑا مارنے کی دھمکی دیدی۔ تب سے وہ کچھ گھبرا سا گیا۔ اکرام اللہ نیازی لونڈا ڈٹا ہوا ہے۔ ایسا ہی انقلابی میں بھی تھا۔ اتنے میں میاں شریف دور سے جنرل ضیاء الحق کو آواز مارتے ہیں۔ ” جنرل صاحب ! واشنگ مشین ٹھیک ہوگئی ہے ” آکر لے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*