عمرانی ویڈیوز: پراجیکٹ ہنی۔پاٹ اینڈ ہیپی۔ڈیز

Spread the love

: تحریر ” لالہ صحرائی ” : 

ایک مسلم لیڈر کی دو فحش موویز کی کہانی جو دو سپر پاورز کے پاس تھیں مگر اپنے پروڈیوسرز کیلئے ہی مزاق بن کے رہ گئیں۔
۔۔۔
انتساب:
میاں احمد جہانزیب نورپوری صاحب کے نام
۔۔۔
صدر بش نے انڈونیشین صدر محترمہ میگاوتی سوئیکارنوپُتری کی تقریب حلف برداری پر 2001 میں یہ الفاظ کہے تھے:
“انڈونیشیا کے لوگوں نے اپنی لیڈرشپ کرائسس کے دوران اپنے آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے”۔
جبکہ یہی لوگ میگاوتی کے والد اور انڈونیشیا کے بابائے قوم احمد عبدالرحمٰن سوئیکارنو مرحوم کو امریکی غلامی کی راہ پر ڈالنے کیلئے جنسی فلموں سے بلیک میل کر رہے تھے۔
کسی سربراہِ مملکت کی فحش تصویریں عوام کو مل جائیں تو کیا ہوتا ہے یہ جاننے کیلئے بل۔کلنٹن کا نام اور انجام ہی کافی ہے لیکن ایسے خطرناک سکینڈلز جو کسی سربراہِ مملکت کا سیاسی کیرئیر تباہ کرسکتے ہوں وہ سوئیکارنو صاحب کی بیباک شخصیت کے سامنے محض اڑتے ہوئے بادل کے سوا کچھ نہ ثابت ہو سکے۔
صدر سوئیکارنو کو ہٹانے کیلئے ان سکینڈلز کو بلاک بسٹر کے طور پر استعمال ہونا تھا لیکن یہ سچے ہونے کے باوجود الٹا ان کیلئے ایک بلاک بسٹر پاپولیریٹی کا ذریعہ بن گئے، محض اسلئے کہ قوم اپنے لیڈر کی سیاسی حیثیت اور دونوں سپرپاورز کی بدمعاشی کو سمجھتے ہوئے اپنے لیڈر کی حمایت میں تن کے کھڑی ہو گئی تھی۔
سوئیکارنو صاحب کی پہلی جنسی فلم کے۔جی۔بی نے بنائی تھی جسے پراجیکٹ ہنی۔پاٹ کا نام دیا گیا تھا، یہ فلم سو فیصد اصلی تھی، اس کا پہلا حصہ فضائی سفر میں اور دیگر حصے ماسکو کے ہوٹل میں قیام کے دوران ریکارڈ ہوئے تھے۔
جون 1961 میں خروشیف نے سوئیکارنو صاحب کو ماسکو آنے کی دعوت دی تو ان کی فلائٹ میں کے۔جی۔بی کے متعدد ایجنٹ اور ایک خوبصورت حسینہ محترمہ “نِگل” فضائی عملے کے بھیس میں موجود تھے۔
سوئیکارنو صاحب حسن و عشق کے معاملے میں کافی خوش ذوق واقع ہوئے تھے اسلئے نگل کی اداؤں سے گھائل ہوگئے، نگل بھی انہیں نگلنے کیلئے تیار ہو کے آئی تھی چنانچہ نتیجہ وہ نکلا جو ایک جنسی فلم کی عکسبندی کیلئے کافی ہوتا ہے اور یہ عکسبندی نگل کے ساتھی کر چکے تھے۔
پھر وہ ماسکو کے جس ہوٹل میں ٹھہرے تھے، وہاں ان کی خدمت کیلئے نگل اپنی کچھ سہیلیوں کو بھی لے آئی، ان “Swallows” کا ساتھ پانی میں اٹھلاتی مچھلیوں کی طرح تھا اور خفیہ ایجنسی کی ٹیم آئینوں کے پیچھے سے دو ویڈیو ریکارڈرز اور اس وقت کی جدید ترین رنگین ٹیپ کا استعمال کرتے ہوئے “ہنگامہ آرائی” کے پورے عمل کو ہر زاویے سے فلماتی رہی۔
جب فلم تیار ہوگئی تو ایجنسی کے آفیسر نے سوئیکارنو صاحب کو ون ٹو ون ملاقات میں وہ فلم دکھا کے دھمکی دی کہ چپ چاپ کمیونزم کی لائن میں کھڑے ہو جائیں، سوویت یونین کی پیروی کریں اور مغرب کی مخالفت کریں ورنہ یہ ویڈیو لیک ہوجائے گی۔
اس صورتحال سے خوفزدہ ہونے کی بجائے غیر متوقع طور پر صدر صاحب نے حیرت انگیز خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوویت حکومت نے جو پیکج تیار کیا ہے اس کیلئے میں بہت مشکور ہوں، یہ پیکج آپ جس کو دکھانا چاہتے ہیں بیشک دکھا دیں اور برائے مہربانی اس ویڈیو کی چھ کاپیاں مجھے بھی بنا کے دیں، ایک میں یادگاری کیلئے اپنے پاس رکھوں گا، باقی کچھ دوستوں کو دوں گا تاکہ وہ میری مردانگی کی تعریف کریں۔
صدر صاحب نے کے۔جی۔بی آفیسر کو دفاعی پوزیشن پر آتے دیکھ کے مزید کہا، میں مزاق نہیں کر رہا، جب میرے لوگ مجھے اس حال میں دیکھیں گے تو وہ اپنے صدر کے اقدامات پر فخر کریں گے، پھر انہوں نے فلم کی کچھ خامیوں کی نشاندہی بھی کی اور آفر کی کہ اگر آپ یہ خامیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو میں ری۔میک کیلئے تعاون کرنے کو بھی تیار ہوں۔
ایجنسی کے کرتا دھرتا سمجھتے رہے تھے کہ سوئیکارنو bluffing کر رہا ہے لہذا انہوں نے کچھ فلمیں انڈونیشین پبلک کے حوالے کر دیں لیکن جیسا کہ توقع تھی، اس اقدام کا کوئی برا اثر نہیں ہوا، الٹا یہ ہوا کہ قوم نے اس جنگ کو خوب سراہا جو فادر آف دی نیشن نے چند سفید فام خواتین کے خلاف نہایت بے جگری سے لڑی تھی، وہ اس کاروائی کو اپنے ملک کیلئے کوئی اعزاز جیتنے کے مترادف قرار دینے لگے، اس فیڈ۔بیک سے نہ صرف کے۔جی۔بی کی محنت اور محترمہ نگل کی قربانی بیکار ہو گئی بلکہ جنسی بلیک میلنگ کی یہ کوشش جاسوسی کی تاریخ میں ایک مزاحیہ داستان کے طور پر بھی مشہور ہو گئی۔
مثلاً سوئیکارنو صاحب کے جواب کو آپ، پراں وڑ سالیا، کے مترادف سمجھ لیں اور قوم کے فیڈبیک کو، تہاڈی بےبے نال اینج ای ہونا چائی دا سی، سمجھ لیں تو یہ داستاں آج بھی کافی مزاحیہ لگے گی۔
حسن و عشق کی چالوں کے پیچھے چھپے سیاسی کھیل میں صدر صاحب روسی خفیہ ایجنسی کا نشانہ کیوں بنے؟ اس کا انڈونیشیا کی منفرد اسٹریٹجک پوزیشن سے بہت گہرا تعلق ہے جس کی وجہ سے سرد جنگ میں وہ کئی دہائیوں تک امریکی اور سوویت تسلط کا میدان جنگ بنا رہا ہے۔
اگرچہ سوئیکارنو صاحب ایک قومی ہیرو کے طور پر اپنی قوم اور مسلم دنیا میں قابل احترام رہے ہیں، لیکن ان کی نجی زندگی کچھ ایسی ہی تھی جیسی اوپر بیان ہوئی ہے، اسلئے کے۔جی۔بی کے بعد سی۔آئی۔اے نے بھی ان کے پلے۔بوائے امیج کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اس کا ٹارگیٹ انڈونیشی قوم کی بجائے ان کے دوست ممالک اور دیگر دنیا کے ذہنوں میں سوئیکارنو صاحب کی بہادری کی تصویر کو ہٹا کے غیرمہذب زندگی کی قابل مذمت تصویر پیش کرنا مقصود تھی تاکہ جب انہیں فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹایا جائے تو کچھ زیادہ رد عمل نہ آئے اور ہم دنیا کو یقین دلا سکیں کہ ان کے بعد کا انڈونیشیا بہت بہتر ہوگا۔
سن۔1955 کے الیکشن میں امریکہ نے انڈونیشیا میں پرو۔امریکہ گورنمنٹ لانے کیلئے ایک ملین ڈالر خرچ کیا تھا لیکن وہ بابائے قوم کو شکست نہ دلوا سکے، پھر انہوں نے تین سال کی محنت سے دس ہزار کے قریب حقوق مانگنے والے مسلح باغی کھڑے کئے جنہوں نے سن۔1958 سے حکومت کے خلاف باقائدہ چھاپہ مار کاروائیاں شروع کر دیں لیکن سوئیکارنو صاحب نے جلد ہی ان پر قابو پا لیا۔
سن۔1961 میں جب روسی فلم کی بازگشت امریکہ میں سنی گئی تو ان کو بھی ایک فلم بنانے کا خیال آگیا لیکن ان کیلئے روس جیسا بلیک۔اوپ کرنا ممکن نہیں تھا اسلئے سی آئی اے نے سوئیکارنو صاحب کے ہمشکل تلاش کرنا شروع کر دیئے، اس میں بھی کامیابی نہ ہوئی تو ان کے چہرے پر مبنی ایک ماسک بنوایا، اور لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ LAPD کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ پورن فلموں کا کوئی اداکار تلاش کرے جو یہ ماسک پہن کے ہوبہو سوئیکارنو جیسا لگے۔
یہ کہانی سی۔آئی۔اے کے ایک آفیسر مسٹر جوزف برکھولڈر سمتھ نے 1976 میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب، پورٹریٹ آف اے کولڈ وارئیر، میں بیان کی ہے، اس کے مطابق صدر صاحب کی ایک جنسی فلم اور کچھ عریاں فوٹوز بنانے درکار تھے جس میں اسے روسی گرل فرینڈ کیساتھ جنسی سرگرمی میں مصروف دکھایا جانا تھا لیکن اس کی جنسی فتوحات نے چونکہ انڈونیشی قوم کو زیادہ پریشان نہیں کیا اسلئے سی۔آئی۔اے نے بھی اپنی مصنوعات کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کچھ لوگوں نے اس فلم کا نام، لو ان ایکشن، بتایا ہے لیکن مسٹر جان رانیلاگ نے اپنی کتاب، دی ایجنسی، میں لکھا ہے کہ سوئیکارنو مخالف فحش فلم کا عنوان ہیپی ڈیز تھا اور اس پراجیکٹ کی کچھ تصویریں مشرق بعید میں تقسیم کیلئے بھیجی بھی گئی تھیں۔
بہرحال ان دونوں کی کوششوں کے باوجود سوکارنو صاحب 1945 سے 1967 تک کل بائیس سال اقتدار میں رہے اور انڈونیشی قوم کیساتھ ان کے دوستانہ، غیر مخفی اور کھلے رویے کی وجہ سے KGB اور CIA جیسی دو بڑی جاسوسی ایجنسیوں کے جنسی بلیک میلنگ کے منصوبے نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ اپنے پروڈیوسرز کیلئے شرمندگی کا باعث بھی بنے رہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بندہ ساڈا وی سائیکارنو صاحب جیسا مسوم جیا ہے گا، استعماری طاقتوں کو آنکھیں بھی دکھاتا ہے، اور سٹریٹجک پوزیشن ہماری بھی انڈونیشیا جیسی منفرد ہے گی، اوپر سے یہ صاحب رشیا کا چکر بھی لگا کے آئے ہیں، پھر رشیا اور امریکہ کی سرد جنگ کے تقاضے ہم سے بھی وہی ہیں جو انڈونیشیا سے تھے اور کسی فلم کی افواہ بھی سنائی دے رہی ہے۔
اس موقع پر سوال یہ ہے کہ کیا قوم اپنے لیڈر کے پیچھے انڈونیشی قوم کی طرح تَن کے کھڑی ہو جائے گی اور ایسی کسی صورتحال میں کیا ہم بھی، پراں وڑ سالیا یا تہاڈی بےبے نال اینج ای ہونا چائی دا سی وغیرہ کہنے کی پوزیشن میں یا نہیں۔
رب چنگیاں کرے تے سدھیاں پائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*