کس کی زباں کھلے گی پھر، ہم نہ اگر سنا سکے

Spread the love

: تحریر : ” میاں احمد جہانزیب نورپوری ” 

شہید جنرل محمد ضیاءالحقؒ نے ہماری نسل کے ذہنوں میں عساکر پاکستان کی جو “دیومالائی محافظ” والی شبیہ نقش کی تھی۔ اس شبیہ کو پہلے جنرل پرویز مشرف کے ناقص فیصلوں نے مدھم کیا اور اب جنرل قمر باجوہ نے وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی غیردانشمندانہ منصوبہ بندی سے دھندلا دیا ہے۔
؂ ہمیں تعمیر کے دھوکے میں رکھ کر
ہمارے خواب چنوائے گئے ہیں
یہ امر مطلق درست ہے کہ عمران خان بطور وزیراعظم داخلی امور میں عوام کی توقعات کےبرعکس بہت بری طرح ناکام ہوئے۔مورخین کے مطابق مغل بادشاہ محمدشاہ رنگیلا سلطنت کےتمام تر مسائل کا ادارک رکھنے کے باوجودانہیں حل کرنے سے قاصر تھا۔ جس کی وجہ ذاتی استعدادکے ناہونے کے باعث بد انتظامی ، اور اس کے ساتھ ساتھ سلطنت کے عہدےداروں اور بڑے مناصب رکھنے والے امراء کا عدم تعاون تھا۔ ہمارے خان اعظم کو ذاتی انا، نرگسیت کے ساتھ یہ ہی صورتحال درپیش تھی۔اگرچہ وبا کا بحران بہت ہی بہترین طریقے سے نمٹا لیااور بین الاقوامی سطح پر عمران خان نے اپنے پیشروں کے برعکس ملک کا ایک باعزت ، باوقار اور مضبوط تشخص کو اجاگر کیا۔
اب چاہے وجوہات کتنی ہی درست ہوںاور نیت بھی نیک ہو, اگر مقتدر حلقوں نے عمران خان کو ایوان اقتدار سے رخصت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا تو کم سے کم کوئی ڈھنگ کا منصوبہ تو بنا لیتے۔فیصلہ سازوں نے جن منصب داروں کو مہم سونپی تھی ، وہ اپنی سوجھ بوجھ اور لیاقت میں تادم تحریر عثمان بزدار ہی ثابت ہوۓ ہیں۔ یہ مہم جو حضرات پاکستانی عوام اور خان اعظم کی نفسیات سے مکمل طور پر ناآشنا نکلے۔ اور عوام پر ایک منفی تاثر قائم ہوا۔
؂ وہ میرے دشمنوں سے مل گیا ہے
تھا جس کو میرا پہرے دار رہنا
غیر جانب داری کی دعویداری کے ساتھ شروع کئے جانے والے مشن کا پہلا مرحلہ ہی اتنا ناقص ہے کہ کامیابی کے نصف امکانات کا اسقاط یہیں پر ہوگیا۔ یعنی خان اعظم کے متبادل کے طورپر کسی بڑے اور اجلے مردِجلیل کے انتخاب کی بجائے وہی آزمائے ہوئے جنم جنم کے میلے کردار مہرہ بنائے گئے۔ اسی عطار کے لونڈوں سے علاجِ تنگی داماں کے واسطے رجوع کیا گیا جو نظریہ پاکستان اور قومی اداروں کے خلاف زہریلی اور تمسخر آمیز ابلاغی کوڑھ کے بیج بوتا آرہاتھا۔ سیاسی جوڑتوڑ (پولیٹیکل انجنئیرنگ) کے دوسرے مرحلے میں اگر حکومت کے اتحادی اور آزاد ارکین کو نئے سیاسی اتحاد کا حصہ بن لیا جاتا توبات جمہوری اور قانونی حد میں رہتی۔ لیکن تحریک انصاف کے نشان کے ساتھ جیتنے والے اراکین کی منڈی سارے عوام کے سامنے لگی۔ غیر وابستہ شہری اور عمران خان کے مداحین عدلیہ کے فوری اور از خود عمل کی طرف امید لگائے ہوئے تھے۔ کیونکہ سنا تھا قانون اندھا ہوتا ہے ، منصف اندھے نہیں ہوتے۔ لیکن قاضی القضاة نے بھی اپنے فرض کو غیر جانب داری کے لبادے میں چھپا لیا۔ ‌‌
؂ اب اس رقص کی دھن پہ ناچو
جس کی گیت پہ لٹ گیا قاضی
بڈھے مکاروں کو جب من مانی کرنے کوکھلا میدان ملا تو حکومتی اتحادی رام کرلیےگئے۔ سب سے زیادہ بے مروتی بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے بلوچلوں نےدکھائی۔ شاہ زین بگٹی جس کے حلقے کے لئے خصوصی توجہ کی گئی تھی ، سب سے پہلے وابستگی بدل گیا۔
اس کھیل کے سارے منصوبہ ساز اور کردار ساری چالیں چلتے ہوئے بھول گئے تھے کہ خدائے ذولجلال کی منشاء کے آگے سب ہیچ رہتا ہے۔ پاکستان کی عوام نے اس اقتدار کے کھیل کو کرکٹ میچ کی طرح دیکھا اور ہر لمحے پر اپنی رائے زنی کی گئے وقتوں میں خبر عام شہری تک پہنچتے پہنچتے گھنٹے اور دن لیتی تھی مگر اب عوام کی ایک بڑی تعداد جدید موبائل فون کی صورت جام جمشید اپنے ہاتھوں میں رکھتی ہے۔ پہلے اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں مقتدرہ کے ایک مشہور فرستادہ مولوی اقبال حیدر ایڈووکیٹ جب ایک فریاد لے کر پہنچے تو تمام سیاسی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے شہری سمجھ چکے تھے کہ غیر جانب داری کے پردے کے پیچھے سے ہی سب ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں۔
صیاد و باغباں میں بہت ہوتی ہے صلاح 
ایسا نہ ہو کہیں گل و بلبل میں جنگ ہو
تمام تر اخلاقی اور آئینی حدود پھلانگ کر انتقال اقتدارکی سہولت کاری عوام کےسامنے پل پل عیاں ہورہی تھی۔ آخری گھنٹے میں جب قاضی القضاة جو پہلے بھی چھٹی والے دن انصاف کے در وا کر چکے تھے ، دوبارہ نصف شب عدالت میں اپنے ماتحت منصفوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوگئے۔ خبر آئی کہ مقننہ کو مسلح اہلکارو ں نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔ اور گرفتاریوں کے لئے گاڑی بھی آ پہنچی ہے۔ پوری دنیا میں اس صورتحال سے جڑے پاکستانی حیران تھے کہ کون سی غیر مرئی طاقت شاہراہ دستور کی غلام گردشوں میں فرمانروائی کررہی ہے۔
وہ تمام شہری جو وطن عزیز میں اسلامی قانون اور انصاف کا بولا بالا چاہتے ہیں اورخان اعظم کے باشعور اور اندھے مقلد، پہلے ہی اس دھونس دھاندلی پردل گرفتہ تھے،ان کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے حزب اختلاف کے ابلاغی حلیف یہ خبر دے رہے تھے کہ اعلی عسکری حکام نے وزیر اعظم عمران خان کو بے توقیر کرنے کے بعد خائن گدھ دوبارہ بطور حاکم مسلط کردیئے گئے ہیں۔ غیر جانبدار ہونےکے دعویدار حلقے اپنی پھرتیوں کے باعث عوام کی نظروں میں مکمل طور پر برہنہ ہوگئے۔
؂ نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی
فیصلہ ساز کمانداروں نے یہ فتح تو حاصل کرلی مگر اپنے فطری حلیفوں کی صفیں درہم برہم کرڈالی ، جو ان کے موقف کے پرچارک تھے اور مخالف افواہوں کو ہر صورت بے اثر کرنے کو کوشاں رہتے تھے۔ اب ان انگلیاں شکوے اگل رہی ہیں تو شکائت کیسی۔
؂ اٹھا کے ہاتھوں سے تم نے چھوڑا چلو نہ دانستہ تم نے توڑا
اب الٹا ہم سے تو یہ نہ پوچھو کہ شیشہ یہ پاش پاش کیوں ہے
اب خان اعظم نے بے مثال مزاحمت کو جنم دے دیا ہے ۔ ان کا موقف جو بھی ہو ۔ ان کا اشارہ ان دیکھی اندرونی اور بیرونی قوتوں کے گٹھ جوڑ کی طرف ہی ہے ۔ اور اپنے آپ کو یوں اجاگر کررہے ہیں۔
؂ وہ سرپھری ہوا تھی سنبھلنا پڑا مجھے
میں آخری چراغ تھا جلنا پڑا مجھے
لیکن اس عوامی ردعمل کو ایندھن دینے والے خود منصوبہ ساز اور سہولت کار ہیں۔ ایک بتدریج غیر مقبول ہوتے ہوئے وزیراعظم کے حمائیتی مہنگائی اور بد انتطامی اس کی حمایت سے تائب ہونے کا ارادہ کر چکے تھے۔ دوسری طرف غیرسیاسی ذہن رکھنے والے افراد کی ہر ایک امنگ کو فکر معاش کھا چکی تھی۔ یہ تمام پاکستانی غیرجانبداروں کی جانبداری دیکھ کر عمران خان کی تمام کو تاہیاں بھلا کر اس کا ساتھ دینے کو تل گئے ہیں۔ میری دانست میں انہیں لگتا ہے کہ بھونڈے طریقے مسترد شدہ کچرہ مال ان پر بطور حاکم مسلط کرکے ان کی توہین کی گئی ہے
اب قاضی القضاة اور سالار اردو اپنے طرز عمل کو جس مرضی جواز کی پوشاک اوڑھا دیں۔ مگر عوام کے اذہان پر جو بے اعتباری کی ضرب لگی ہے ، اس کا درماں کیسے ہوگا۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ادارے ریاست کا زیور ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے اداروں نےسالوں سے کمایا ہوا اعتبار نہ جانے کون سی مصلحت کے ہاتھوں گروی رکھ دیا۔ عوام اور افواج پاکستان کے درمیان جو خلیج آگئی ہے
اب اس کو پاٹنے کے لئے کتنی دہائیاں لگے گی؟
؂ میرے قاتل، میرے مسیحا، میری طرح لاثانی ہیں
ہاتھوں میں تو خنجر چمکیں، جیبوں سےمرہم نکلے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*