عمران خان: جنریشن_زی اور الفا کا غضب

Spread the love

: تحریر ” لالہ صحرائی ” : 

انسان اپنی زندگی کے ساٹھ ستر سال میں تین ادوار دیکھتا ہے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتے ہیں، باپ دادا کا دور، اپنے عروج کا دور اور پھر اپنے بچوں کے عروج کا دور۔
اگر ان تین جنریشنز کی شخصی قابلیت کا موازنہ کیا جائے تو پہلی نسل اپنی تیسری نسل کے آگے بالکل NULL ثابت ہوگی کیونکہ اس کی صلاحیتیں جس دور کیلئے مخصوص تھیں وہ دور بھی گزر گیا، اس کی توانائی بھی استعمال ہو چکی اور نئے دور کے مطابق اس کی اوورہالنگ بھی ممکن نہیں۔
ایک صدی پہلے تک نظام زندگی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا اسلئے پہلی جنریشن کا عمل دخل تیسری جنریشن پر قائم رہتا تھا جس میں کوئی حرج بھی نہیں تھا بلکہ نافع تھا لیکن اب انسانی آئیکیو میں ہر سال ایک پوائنٹ کا اضافہ ہوتا ہے جس کی بنا پر ایک بچہ 20سال بعد اپنے دادا سے چالیس گنا اور باپ سے بیس گنا تیز نکلتا ہے، اسی طرح نظام زندگی میں بھی بہت زیادہ بدلاؤ آجاتا ہے اسلئے اب پچھلی جنریشنز کا عمل دخل اور حکم نفعے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
مثلاً ایک بندہ سو سال قبل کا مینویل جیٹ اڑاتا تھا، اس کا بیٹا پچاس قبل کا سیسنا اڑاتا تھا اور اس کا پوتا جدید انفراریڈ ائیرٹریفک سسٹم میں ایک ڈیجیٹلائزڈ آٹوپائلٹ ائیربس اڑاتا ہے تو یہ باپ دادا اس کو کس بنیاد پر کمانڈ کرنے کے اہل ہیں؟
اسی طرح تمام جنریشنز کے حالات اور رویوں کو مدنظر رکھ کے جو گریڈنگ کی گئی ہے، اس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آئندہ کسی بھی دور کی پہلی جنریشن اپنی تیسری جنریشن کیلئے مقدم تو شائد رہے مگر اسے کمانڈ کرنے سے عاجز رہے گی۔
پہلی ہے، لوسٹ جنریشن:
جو لوگ سن۔1900 تک پیدا ہوئے انہیں lost generation کہا جاتا ہے، وجہ ان کا ڈائیریکشن۔لیس اور ایم۔لیس ہونا ہے، صنعتی دور کے آغاز میں یہ کنزرویٹیو ویلیوز بچانے کی جنگ بھی لڑ رہے تھے اور صنعتی انقلاب سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اسلئے ہیمنگوے نے اپنے ایک ناول میں انہیں you are all lost کہہ کے لوسٹ جنریشن کا نام دیا تھا۔
دوسری ہے، گریٹیسٹ جنریشن:
جو لوگ 1900 سے 1928 کے درمیان پیدا ہوئے، یہ دوسری جنگ عظیم کی سختی اور ڈیپریشن جھیل رہے تھے ان کے حوصلے کیلئے انہیں گریٹیسٹ جنریشن کا نام دیا گیا تھا۔
تیسری ہے، سائلینٹ جنریشن:
وہ لوگ جو 1928 سے 1945 کے درمیان پیدا ہوئے، ان میں سے اب کوئی زندہ ہے تو اس کی عمر ستتر سے چورانوے سال کے درمیان ہوگی، یہ سائلینٹ جنریشن کہلاتی ہے، اردو میں جسے بے زبان کہیں یا پنجابی میں جسے لؤلے کہتے ہیں، یہ نسل علم سماجیات کی کمی کے باعث اجتماعی معاشرتی نظم سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی، اوپر کے چند تسلط یافتہ لوگ معاشرتی فیصلے کرتے تھے اور باقی سب کولہو کے بیل کی طرح اس کی بھگتان کرتے تھے کیونکہ ان میں ناموافق باتوں کو پہچاننے کی اہلیت اور انہیں رد کرنے کی ہمت بہت کم ہوتی تھی۔
چوتھی ہے، بومرز جنریشن:
یہ نسل 1946 سے 1964 کے درمیان کی ہے، عالمی جنگوں سے فراغت کے بعد اس دور میں شرح پیدائش بہت بڑھ گئی تھی اسلئے اس دور کو بےبی۔بوم۔ایج کہا جاتا ہے، ان میں سے زندہ لوگ اٹھاون سے چھیہتر سال کے درمیان ہوں گے، انہیں بومرز کہتے ہیں، بومرز کا دور سائلینٹ ایج سے کچھ بہتر تھا، یہ اجتماعی اور موافق فیصلوں کے حق میں تو تھی لیکن ان کا اجتماعی کنسرن اور ری۔ایکٹیو رویہ بہت کم معاملات میں سامنے آیا ہے، جیسے ہمارے ہاں اس جنریشن کی صرف چار مزاحمتیں نظر آتی ہیں، اینٹی ایوب، اینٹی قادیانی، پرو بھٹو صاحب اور اینٹی ضیاءالحق جیالے۔
پانچویں ہے، جنریشن۔ایکس:
یہ نسل 1965 سے 1980 کے درمیان کی ہے، ان کی عمر اسوقت بیالیس سے ستاون سال کے درمیان ہوگی، یہ نسل بھرپور علمی و سماجی کنسرن اور ری۔ایکٹیو پاور تو رکھتی تھی مگر پرو سوسائٹل سیگمنٹس میں بٹی ہوئی تھی جس کی وجہ سے مخصوص گروہی مفادات کی سیاست نے جنم لیا اور یہ سیاست انتہائی متعصب ہونے کی وجہ سے سوسائٹی کیلئے نان۔بینیفیشیل بلکہ تکلیف دہ رہی ہے البتہ تعلیم اور صنعت میں پروفیشل ازم کو اسی نسل نے فروغ دیا ہے، ان لوگوں نے اپنی افیکٹیو عمر میں ضیاء الحق سے مشرف تک اور سن۔اسی کی پیدائش والوں نے مشرف سے اب تک کا دور فیس کیا ہے۔
چھٹی ہے، جنریشن۔وائے:
اس جنریشن کو ملینئیلز بھی کہتے ہیں جو 1981 سے 1996 کے درمیان پیدا ہوئی، ان کی عمریں بالترتیب چھبیس سے اکتالیس سال کے درمیان ہوں گی، یہ پروفیشنل ازم، سماجی انصاف اور میرٹ کو پسند کرنیوالی نسل ہے جس نے پہلی بار بڑے پیمانے پر اسٹیٹس۔کو، مذہبی شدت پسندی اور گروہی تعصب کی سیاست کو رد کرنے اور انقلابی رویہ اختیار کرنے کی شروعات کی تھی، اس کا پرتو پچھلے پندرہ سال میں تواتر کیساتھ نظر آتا ہے جس میں عمران خان اور اس کے فالورز کا چہرہ بہت نمایاں ہے۔
Millennials۔
ساتویں ہے، جنریشن۔زی:
اسے آئی۔جنریشن اور زُومرز بھی کہتے ہیں:
Generation-zee, iGen, Zoomers
یہ نسل 1997 سے 2010 تک کی ہے، جس میں بارہ سے پچیس سال تک کے بچے اور نوجوان شامل ہیں، یہ پہلی نسل ہے جس نے موبائل، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے جہاں جدید و قدیم دنیا کی سب معلومات ایک سرچ بٹن دبانے پر انہیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔
پیو۔ریسرچ۔سینٹر جو نہایت علمی اور حقیقی ریسرچز کرنیوالا ایک عالمی ادارہ ہے، اس نے ہر زاویئے سے اس جنریشن کی ساخت کو اسٹڈی کرکے ایک مفصل رپورٹ مرتب کی ہے جو اس کی ویبسائیٹ پر موجود ہے۔
Pew Research Center۔
اس رپورٹ کے مطابق جنریشن۔زی وہ نسل ہے جو کم عمر ہونے کے باوجود اپنے سے پہلے کی تمام نسلوں سے زیادہ علم، بہتر انسانی رویہ، انصاف پسندی اور بے لاگ جرآت اظہار رکھتی ہے۔
یہ نسل کسی ریاست کی دوسری ریاستوں پر اور کسی نسل یا گروہ کی دوسری نسل یا گروہوں پر برتری کی ہرگز قائل نہیں بلکہ برابری، میرٹ، تخلیقی عمل، پروفیشنل ازم اور پرابلم سولیوشن کو ترجیح دینے والی ہے۔
یہ اپنا 80 فیصد وقت یوٹیوب لرننگ میں گزارتی ہے اور ورلڈ وائیڈ ایک ہی مائنڈسیٹ رکھتی ہے، گوگل، انسٹاگرام اور فیسبک کی سب سے بڑی یوزر بھی یہی کمیونٹی ہے۔
پرانی نسل سودا بیچتی تھی، یہ پرابلمز کے سولیوشن بیچتی ہے اور نوکری تلاش کرنے کی بجائے اپنے ٹیلنٹ سے خود مواقع تراشتی ہے۔
#ٹکٹوک_میڈ_می_بائے کے ہیش۔ٹیگ پر سوا۔چار۔ارب فالورز میں غالب اکثریت جنریشن۔زی کی ہے، اس ہیش ٹیگ کو تقریباً اسی جنریشن نے کامیاب بنایا ہے۔
اسی فیصد زُومر سماجی اور سیاسی شعور رکھتے ہیں اور ان معاملات میں مسلسل انگیجمنٹ بھی کرتے ہیں، یہ معاملات کو کسی تعصب کی عینک سے دیکھنے کی بجائے پھاؤڑے کو پھاؤڑا کہنے پر زیادہ یقین رکھتی ہے چاہے ان کی بات کسی کے بھی خلاف جائے۔
To call a spade a spade.
سٹیٹسٹا کی رپورٹ کے مطابق پچھلے چند سال سے جنریشن۔زی کا تیس فیصد طبقہ سیاسی اکٹھ، سیاسی مارچ اور سیاسی احتجاجوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتا ہے اور سماجی کاموں کیلئے فنڈ ریزنگ بھی کرتا ہے۔
Statista.
جنریشن۔زی کا چالیس فیصد طبقہ ٹیکنالوجی، ٹرینڈز، ماحولیات، سماجیات، سیاست اور انسانی حقوق پر ازخود کونٹینٹ کرئیشن کرتا ہے، ان کے موضوعات، انداز گفتگو اور موضوع پر علمی گرفت دیکھ کے آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ یہ کتنا ڈیپ سوچتے ہیں۔
جنریشن۔زی کا اسی فیصد طبقہ سوشل میڈیا مبصر بھی ہے اور مختلف مسائل کے حل کیلئے رضاکارانہ خدمات بھی انجام دیتا ہے۔
پچاس فیصد طبقہ اپنی صلاحیتوں سے اپنی جگہ بناتا ہے اور دوسروں کی مدد کیلئے فنڈز اور ڈونیشنز بھی دیتا ہے۔
جنریشن۔زی اور سائلینٹ جنریشن میں فرق یہ ہے کہ وہ بہت کم معاملات کا پیچھا کرتے تھے جبکہ یہ ستر فیصد معاملات کو ٹھیک کرانے کی جستجو کرتے ہیں، جنریشن۔وائے اپنی اولاد کی دوست کہلاتی ہے اسلئے وائے اور زی تقریباً ایک جیسی سوچ و رویہ رکھتے ہیں لیکن عمل میں زومرز ان سے بھی دس بیس فیصد بہتر ہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق جنریشن۔زی کا نوے فیصد طبقہ سوشل میڈیا پہ اثرانداز ہوتا بھی ہے اور اثر قبول بھی کرتا ہے۔
پیو۔ریسرچ نے جہاں اسی۔فیصد طبقے کو پرو۔مذہب بتایا ہے وہاں کچھ اخلاقی کمزوریاں بھی بیان کی ہیں لیکن ہمارا موضوع صرف اس جنریشن کی انٹرپرسنل۔کوالٹی، انٹرایکشن کوالٹی اور آؤٹ۔سپوکن۔کیپیسٹی تک محدود ہے جس میں مختلف معاملات پر تیس سے اسی فیصد طبقہ ہر دم فعال نظر آتا ہے۔
زمانے میں ایسی دسترس اور ہر معاملے میں ورلڈ۔وائڈ ایک جیسی سوچ اور ایک جیسی لائن آف ایکشن رکھنے والا اسی۔فیصد طبقہ اس سے پہلے کسی اور جنریشن میں دستیاب نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ ہماری چینج۔آف۔ریجیم کے کرنٹ افئیرز پر دنیا بھر کے زُومرز نے ایک ہی قسم کا ردعمل دیا ہے جو بے لاگ ہے اور نظام پر قابض بُومرز کے خلاف ہے۔
زُومرز کا وے۔آف۔ایکشن اینڈ ری۔ایکشن ان لوگوں کے حق میں بالکل نہیں جاتا جو پھاؤڑے کو گلدستہ بتا کے دوسرے کو پیش کر رہے ہوتے ہیں، یہ لوجک۔فل نسل ہے جو ہزار دلائل سے ثابت کر سکتی ہے کہ گلدستہ پھاؤڑے جیسا نہیں ہوتا، یہ جنریشن ایکس اور وائے کی طرح سچ چھپانے کو بزرگوں کے ادب کے مترادف نہیں سمجھتی اسلئے یہ کسی بھی بڑے چھوٹے کے سامنے جب پھاؤڑے کو پھاؤڑا کہنے پر بضد ہو جاتی ہے تو بدتمیز لگتی ہے۔
جنریشن۔زی جو آئیفون، ٹیسلا، میٹاورس اور ورچؤل ورلڈ کو اپنے ایکس وائے جنریشن کے باپ دادوں سے بھی زیادہ جانتی ہے، جو ہیومن رائٹس کو بدمعاشی، جبر اور وائیلینس پر مقدم سمجھتی ہے، جو اپنے آؤٹ۔ڈیٹڈ نانکے اور دادکے کو موبائلفون چلانا سکھا رہی ہوتی ہے، یہ جب اپنے بڑوں کو سیاست سمجھانے بیٹھتی ہے تو وہ ان کی دسترس کا اکرام کرنے کی بجائے اپنی لوز ہوتی ہوئی اتھارٹی کو بحال رکھنے کیلئے انہیں بدتمیز قرار دیتے ہیں۔
یہ جنریشن کسی عمران خان نے بدتمیز نہیں کی، یہ بذات خود سب کچھ جانتی ہے اسلئے ڈیٹرمنڈ ہے، اپڈیٹڈ ہے اور کلئیر مائنڈڈ ہے، عمران خان تو صرف ان کے رستے میں پڑتا ہے اور ہر بار انہیں پسند بھی آجاتا ہے اسلئے شور مچتا ہے۔
نظام مملکت پر قابض بُومرز کو یہ شور پسند نہیں، وہ چاہتے ہیں کہ رعایا ماضی کی سائلینٹ جنریشن جیسی ہونی چاہئے تو تھوڑا سا صبر کرلیں، اگلی جنریشن بھی ایک سائلینٹ جنریشن ہوگی مگر تھوڑی سی مختلف ہوگی۔
آٹھویں جنریشن:
اس سے اگلی نسل جنریشن الفا ہے جو 2010 کے بعد پیدا ہوئی ہے، یہ ابھی ایک ماں کی گود میں ہے اور ایک باپ نے اپنے کندھے پر اٹھائی ہوئی ہے، یہ سائلینٹ جنریشن ہوگی جو ڈیوائسز پر نہ لکھے گی نہ بولے گی، کہتے ہیں یہ ڈیوائسز کو اپنے مائنڈ سگنلز کیساتھ چلائے گی، یعنی انجینئیر محمد علی مرزا تقدس کے مارے بومرز کیساتھ جو سلوک چیخ چیخ کے کرتا ہے یہ ایک لفظ لکھے یا بولے بغیر خاموشی سے کر جایا کریں گے۔
مزے تے ماہئیا اودوں آن گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*