اساتذہ متوجہ ہوں: قابلیت کی قدر اور روزگار کے مواقع

Spread the love

 

: تحریر ” لالہ صحرائی ” : 

قابلیت کی قدر اور روزگار کے مواقع
(سیلف اویلیوایشن اینڈ اٹس پروسپیکٹیوز)
پچھلے ماہ میں ایک جہاز راں کمپنی کا کام پکڑا تھا، ان کے ایم ڈی صاحب کو میرا کام اتنا پسند آیا کہ انہوں نے ایک اچھی تنخواہ پر فل ٹائم جاب کی آفر کی ہے، جب کوئی آپ کی اسیسمنٹ کرتا ہے اور ایک اچھی قدر طے کرتا ہے تو ماضی کی ساری تھکن اتر جاتی ہے، ایک سپارکلنگ فیلنگ آتی ہے کہ جو وقت میں نے تفریح کی بجائے پرسنل گروتھ پر لگایا تھا وہ ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی کوئی ورتھ بنائی ہے۔
کوئی بڑا آدمی آپ کو ایک اچھی کمپنی میں جاب آفر کرے، ایسی سہولت صرف اسوقت ملتی ہے، جب ایک تو کام آتا ہو پھر اپنی قابلیت ایکسپوژ کرنے کا موقع بھی ملے۔
قابلیت ڈویلپ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ جو کام بھی کرتے ہیں اسے انتہائی گہرائی تک سمجھنے کی کوشش کریں، اس کے ایڈوانس لیولز تک پہنچیں اور ہمیشہ اس بات پر نظر رکھیں کہ متوازی دنیا میں وہ کام کیسے ہوتا ہے، اس کے جدید انداز، کنسیپٹ اور ٹولز کونسے استعمال ہو رہے ہیں، کیونکہ اب الہ دین کے چراغ کی طرح پورا گلوب آپ کے ہاتھ میں ہے، جو چیز چاہیں آپ نہایت آسانی کیساتھ جان سکتے ہیں۔
اس کے باوجود ایک سکول ٹیچر ماڈرن ٹیچنگ میں ایمپیتھی کی اہمیت، ایموشنل لرننگ، ہیلپنگ دی اسٹوڈنٹس، فالو۔اپ ود پیرنٹس، گیوِنگ ایکسٹرا نالج اور دیگر جدید ٹیکنیکس پر کوئی توجہ نہیں دیتا، ہر بندہ یہ سوچ کے چلتا ہے کہ پڑھانا کونسا کام ہے جس کی مزید ٹریننگ لی جائے یا اس میں جدت لائی جائے، پھر جتنا کام میں کرتا ہوں اس کی تنخواہ بھی اچھی نہیں ملتی تو زیادہ کام کیوں اپنے گلے لگا لوں جبکہ سوچنا یہ چاہئے کہ میں اپنے کام میں جتنا منفرد ہوجاؤں گا اور جتنا بڑا نظام چلانے کی ذمہ داری اٹھاؤں گا، آگے کہیں سے مجھے اتنے ہی اچھے چانسز آفر ہوں گے، جس ٹیچر نے پرنسپل کا دائرہ دیکھا سمجھا اور معاونت کی حد تک بھی پریکٹس نہ کیا ہو، وہ کہیں پرنسپل لگنے کا خواب کیسے دیکھے گا جبکہ اپنے اندر علم کیساتھ انتظامی صلاحیتیں، معاملہ فہمی، نرمی، تحمل، ڈسپلن اور سختی کو پیدا کرنا اور برمحل استعمال کرنا بھی نہ سیکھا ہو۔
ایکسپوژر کے معاملے میں آپ انتہائی خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں اپنی قابلیت بتانے کیلئے درجنوں آنلائن پلیٹ فارمز دستیاب ہیں، آپ صرف لنکڈ۔ان یا انسٹاگرام پر اپنی روزمرہ کی ڈائری ہی لکھنا شروع کر دیں کہ آج اسٹوڈنٹس کو یہ چیز پڑھائی تھی اور اس طرح سے ڈیفائن کی تھی، کچھ کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی تو پھر اس طرح سے سمجھانی پڑی، یہ نیومیریکل ایسے حل ہوگا، فلاں بات کا کنسیپٹ یہ ہے، صرف اتنی سی حرکت پر گیرنٹی ہے کہ بہت جلد آپ کو آنلائن اسٹوڈنٹس کی آفرز ملنا شروع ہو جائیں گی۔
یہ بات ہر ہنرمند کیلئے ہے لیکن ٹیچرز کو صرف اسلئے مینشن کیا کہ ایک تو ان کی تعداد بہت ہے، پھر سارے ہی تقریباً تنگدست بھی ہیں اور رائیٹرز کی طرح ویہلے بھی بہت ہیں مگر پرسنل ڈویلپمنٹ پر توجہ نہیں دیتے، یہی حال بینکرز کا ہے، جو بندہ سارا دن مارک۔اپ کو ڈیل کرتا ہے اسے قسم اٹھوا کے پوچھ لیں جو کبھی اس نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی ہو کہ اسٹیٹ بینک اپنا مارک۔اپ ریٹ کس بنیاد پر طے کرتا ہے اور وہ فلکچوایٹ کیوں ہوتا ہے، اکنامک ڈیٹا کیسے مرتب ہوتا ہے، مینیجیریل کیڈر کے آدھے بینکرز کو رسک نکالنا، پروجیکشن اور شائد فورکاسٹ بھی نہ آتی ہوگی لیکن بی۔ایم بننے کا شوق ضرور ہوگا، اس کیساتھ اگر پرسنل ڈویلپمنٹ کا شوق بھی پیدا ہو جائے تو بیشک بی۔ایم بننے کا چانس نہ ملے مگر شام کو دو گھنٹے فائنانس والوں کو پڑھا تو سکتے ہیں، کم از کم بینکنگ کا چیپٹر تو سمجھا ہی سکتے ہیں۔
میرے ایک کلاس فیلو کے والد صاحب ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر اور علاقے کے معزز زمیندار بھی تھے، ایسے رکھ رکھاؤ والے گھرانے میں کبوتر بازی بھلا کیسے ہو سکتی تھی، وہ بھی ماضی کے دور میں لیکن اس نے ٹکڑی رکھی ہوئی تھی، شام کو اڑاتا بھی تھا اور تعلیمی لحاظ سے ایم۔اے انگلش کیا، دو بار سی۔ایس۔ایس میں بھی بیٹھا، افسر نہیں بنا تو پھر ایل۔ایل۔بی کرکے وکالت شروع کر دی، کامیاب وکیل ہے، ایک جج کا داماد ہے، زمیندار ہے اور کبوتر بھی اڑاتا ہے۔
اوورآل گزارش صرف یہ کرنی ہے کہ آپ چاہے کبوتر اڑائیں یا میری طرح فیسبک پر یبلیاں ماریں لیکن اس کیساتھ ترجیحی طور پر اپنا پروفیشنل پروفائل بھی مضبوط رکھیں تاکہ اپنے لئے نوکری تلاش کرنے کی بجائے الٹا نوکری آپ کو تلاش کرے اور یہ کام باآسانی ہو سکتا ہے۔
سمپلی پُٹ یور ہینڈز آن پریکٹس جسٹ فرام ٹوڈے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*