خواجہ سعد رفیق: ڈیٹ اسٹیٹ کے پیغام رساں؟

Spread the love

:  ”  تحریر ”  میاں محسن بلال  :

نام مرزا اسد اللہ خان غالب۔ مشہور غزل کا اک شعر

بَک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کی خطابت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جب بولتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت موجودہ جتنے بھی سیاسی چہرے نظر آتے ہیں یا پس پردہ خاموش ہیں ان میں سے بہت کم ہیں جو خواجہ رفیق شہید کے فرزند جیسا لب و لہجہ اور انداز بیان کی طاقت رکھتے ہوں۔

اکثر پریس کانفرنس  یا کسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں میں ہوئے فیصلوں اور نجی سیاسی ملاقاتوں کے احوال کا اظہار زو معنی طریقے سے کر جاتے ہیں۔ جسکا پیغام ہر خاص و عام کیلئے نہیں ہوتا بلکہ جن کیلئے ہوتا ہے انکو تیر سیدھا سینے پر جاکر ہی لگتا ہے اور سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔  جو پیغام کے خالق ہوتے ہیں وہ بھی خوش ہوجاتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سیکرٹریٹ میں قائد اعظم محمد علی جناح اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی 25 دسمبر کی مناسبت سے سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے اک چھوٹا سا جلسہ منعقد کیا گیا۔ حمزہ شہباز، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اور دیگر لیگی رہنماوں کی موجودگی میں خواجہ سعد رفیق نے 30 منٹ دورانئیے کا خطاب کیا۔

اپنے خطاب میں جہاں انھوں نے اپنے کچھ پرانے رفیقوں کا نام نہ لئے بغیر نشتر چلائے وہی میاں نواز شریف کو نیلسن منڈیلا ثابت کرنے کیساتھ ڈیل، ڈھیل اور آئندہ سیاسی منظرنامے کا اشارہ بھی دیا۔ ووٹ خریدنے کی زرداری کی سیاست کو بھی حرف تنقید بنایا۔ تحریک انصاف کو پاکستان کی سیاست میں ایک حقیقت بھی تسلیم کیا۔

اس خطاب کی کچھ اہم نکات کو بیان کرتے ہوئے ساتھ ساتھ تجزیہ بھی کرتے ہیں۔

اپنے خطاب کی تمہید انھوں نے اتحاد سے باندھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے اسکو نقشہ کھینچا۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو کچھ رگڑا اور اس ساتھ بڑی مہارت سے اپنی جماعت کے سیاسی کلچر کا بھانڈا بھی پھوڑا۔ وہ بولے کہ قائد اعظم  نے جمہوری جدوجہد کی، ہم نے چیچک زدہ جمہوریت مسلط کردی۔ کھلے اور نقاب پوش مارشل لاء لگے. بنگالیوں کی تضحیک کی گئی۔مجیب الرحمن کا مینیڈیٹ تسلیم نہ کیا گیا۔  یحییٰ خان اور بھٹو کے گٹھ جوڑ نے اتحاد کے تابوت میں  آخری کیل ٹھونکا۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہونی چاہیے۔

پھر خواجہ سعد رفیق مارشل لاء کو کوسنے کی جانب آئے ۔  

سعد رفیق بولے کہ مارشل  لاؤں کے خوف سے خاموش نہیں رہ سکتے. اس ملک میں ہر وزیر اعظم کی تذلیل کی گئی۔ مادر ملت کو بھی سیکورٹی رسک قراردیا گیا۔ پورے ملک میں جدوجہد ہوئی لیکن پنجابیوں نے جدوجہد نہیں کی اب نواز شریف نے جدوجہد شروع کی ہے. نواز شریف کے بغض میں ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔ نواز شریف کو ہائی جیکر بنا دیا گیا۔ ہائی جیکر تو مشرف تھا جو  خود جہاز میں بیٹھا تھا۔

پاکستان میں جتھے بنانے والی قوت کو نام تو نہ لیا لیکن درپیش خطرات کے اصل ذمہ دران کو کھڑی کھڑی بھی سنائی ۔ بولے ریاستی ادارے سب کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتے ہیں۔ پاکستان کو اندرونی تلخیاں اور خطرات بہت ہیں. پاکستان میں جتھوں کی سرپرستی کی گئی۔ 10 ہزار کا جتھ جاتا ہے اور دارالحکومت کو یرغمال بنا لیتا ہے. سیاستدانوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں کیا وہ بھی جتھے بنائیں۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ہوئی ہتک کو بھی حرف تنقید بنایا لیکن ساتھ ہی خواجہ صاحب نے اپنی اخلاقی تربیت کا ذکر بھی کردیا۔ تسلیم کیا کہ آزاد عدالتی نظام نہیں ہے. اس ملک میں انصاف نہیں کیا گیا. پسند نہ آئے تو چور ڈکلئیر کر جاتے ہیں. توہین عدالت تو ثاقب نثار پر لگنی چاہئیے جو منہ توہین کرتے تھے۔ میرے ساتھ انھوں نے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے لیکن  ثاقب نثار ملتے ہیں کھڑا ہوجاتا ہوں۔  انکا اب بھی احترام کرتا ہوں۔

تقریر کا دلچسپ پہلو وہ تھا جس میں خواجہ سعد رفیق نے چوہدری نثار کا نام تو نہ لیا لیکن ساتھ ہی نواز شریف کو جمہوریت پسند، اصولوں والا اور  نیلسن منڈیلا ثابت کرنے کی کوشش کی۔

بولے کہ جتنا مرضی غداری کا فتوی لگانا لوگوں نے ووٹ ہم کو ہی دینا ہے. میرے جیسے بہت سے لوگ زرداری کے آخری دنوں میں کہتے تھے کہ میاں صاحب لانگ مارچ کریں. ملک کے برے حالات ہیں۔ پیپلزپارٹی سے لوگ تنگ ہیں اس حکومت سے چھٹکارا دلائیں ۔ لیکن میاں نواز شریف کہتے تھے کہ لانگ مارچ سے حکومت نہیں گرانی۔ جسکو مینڈیٹ ملا ہے اسکے  پانچ سال پورے ہوں. کچھ سیاستدان پارٹی میں دوبارہ شمولیت چاہتے تھے لیکن  نواز شریف نے کہا جو روز وفاداریاں بدلتے ہیں انکو پارٹی میں نہیں لینا. نواز شریف اور فضل الرحمن فیصلہ کر لیتے تو عمران خان کی کے پی کے میں حکومت نہیں بن سکتی تھی۔  نواز شریف نے کہا اکثریت عمران خان کی ہے اسی کی حکومت بنے۔ عمران خان نواز شریف کا  احسان نہ مانے لیکن حقیقت تو تسلیم کریں۔ ہمارے ایک رہنما نواز شریف کو کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کا احتساب کریں۔ نواز شریف نے کہا کہ احتساب کرنا احتسابی اداروں کا کام ہے.

تقریر کے اس پہلو کا تجزیہ کریں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ چوہدری نثار کی طرف اشارہ تھا ؟ کہ وہ چاہتے تھے کہ پیپلزپارٹی کا احتساب ہو۔ اس کے علاوہ اگر نواز شریف اتنے ہی اصول پسند  لیڈر ہیں تو پھر سینیٹر مشاہد حسین سید کو اپنی پارٹی کے رہنما کا حق مار پر ن لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر کیوں بنوایا؟ وہ بھی تو لوٹے ہی تھے۔ اگر اتنے ہی  جمہوریت پسند ہیں تو اپنی جماعت میں آج تک انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں کروائے۔ پارٹی عہدوں پر سلیکشن ہی کیوں کی جاتی ہے؟

خواجہ سعد رفیق نے اپنی تقریر کو سمیٹا اور مستقبل کی تصویر کھینچی۔ نواز شریف کو بھی پیغام رساں کا پیغام دیا کہ ایسا مان لیں تو سب معاملہ حل ہوسکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب پلٹا کھاتے ہوئے نواز شریف کیا سوچتے ہیں وہ بھی پیغام آگے پہنچا دیا۔

بولے کہ  مطلب کے لوگوں کو ڈی جی نیب لگانا کا دھندہ چھوڑ دیں. پیپلز پارٹی کی پنجاب میں ری برتھ ہونی چاہیے لیکن این اے 133 والا ماڈل یعنی ووٹ خریدنے کا طریقہ نہیں چلے گا. سکور سیٹنگ سے ملک آگے نہیں چلے گا. ن لیگ کو اپنا بدلہ چھوڑنا پڑے گا.سب ملک کر جمہوریت کی حفاظت کریں۔

خواجہ سعد رفیق کے زومعنی خطاب سے یہی نقشہ بنتا دکھائی دے رہا ہے اور ایمپائر کی سوچ کی عکاسی بھی ہوتی ہے وہ کیا سوچ رہا ہے؟ بہت ضروری ہوا تو قبل ازوقت انتخابات نہیں تو پانچ سال ایک ڈاکٹرائن کے مطابق ہر حکومت کو پورے کرنے ہیں۔ نواز شریف کی شرست میں بدلا ہے۔ اگر معاملات طے پا جاتے ہیں اور ن لیگ کو پاور شئیرنگ میں اہم کردار مل جاتا ہے تو نواز شریف کے ساتھ جنہوں نے سب کیا انکے ساتھ دوستی کرنی ہے۔ مشرف جیسی مہم جوئی کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی۔

رہی مارچ میں لانگ مارچ کی بات یا عمران حکومت کا خاتمہ تو ہمارے رائے میں پچھلے دو جمہوری ادوار کے آخری دو سال کے سیاسی حالات اور کشمکش کو سمجھنا ضروری ہے۔ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں امریکی سٹنگ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی شہادت کے بعد مشہور زمانہ میمو گیٹ اسکینڈل آیا۔ صدر زرداری اچانک دوبئی چلے گئے ۔ اقتدار کے ایوانوں میں چہ مگوئیاں ہوئیں کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا والا ماجرا ہوا۔ پریشر کم ہوا تو زرداری صاحب کو ایک اور اتحادی یعنی ق لیگ نے سہارا دیا۔ کل کی قاتل لیگ آج کی دوست بن گئی۔ چوہدری پرویز الہی ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ توہین عدالت کے مرتکب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہوئے اور انکو گھر جانا پڑا اور انکی جگہ پیپلزپارٹی کے راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بن گئے۔ پیپلزپارٹی نے پانچ سال پورے کئے۔

اسکے بعد 2013 میں ن لیگ کی حکومت بنی۔ عمران ، قادری 2014  کا دھرنا ہوا۔ نواز شریف کا دھرنا کچھ بگاڑ سکا۔ تاہم 2016 میں پانامہ آگیا ۔ یعنی ن لیگ کی حکومت ختم ہونے کے 2 سال پہلے۔ 2017 میں نواز شریف بھی پانامہ کیس میں صادق و امین نہ رہے اور سزا پا کر نااہل ہوئے۔ لیکن انکی جگہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن گئے اور ن لیگ نے 5 سال مدت پوری گی۔

تبدیلی سرکار کی حکومت کو بھی تین سال ہو گئے دو سال باقی ہیں۔ اپنی اپنی بساط میں سب کھلاڑی مگن ہیں۔ تصور کربھی لیا جائے مائنس عمران خان،،، تو ،،، پھر بھی تسلسل چلنا۔

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

کس کی حاجت روا کرے کوئی

مرزا غالب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*