ہتھکڑی کی بجائے اب گلدستہ

Spread the love

 

:  ” تحریر ” میاں محسن بلال  :

ہتھکڑی لگی تھی جب نامعلوم مقام پرلایا گیا۔ پھر ہتھکڑی کھولی گئی ۔ ایک ایک کرکے اس نے سب سے سلام لیا۔ ایک شخصیت سے اسکے علاقائی لب و لہجے میں حال احوال پوچھا۔

بات کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوئی۔ اگلے روز پھر بات چیت شروع ہوئی۔ ایک اعلی سرکاری آفیسر نے اجلاس میں یہ کہہ کرآنے سے انکار کردیا کہ  ” مجھے مرتد ” کہا جاتا ہے۔

اس کو یہی تک رکھتے ہیں اور آگے چلتے ہیں۔ اب گلدستہ لیکر ہتھکڑی لگے نوجوان کی رہائی پر مبارکباد دینے کی بات چل نکلی ہے۔ جس کو سیاسی طور پر مخالفین اور لبرل طبقہ یوٹرن کہہ رہا ہے اور معاملے کو سلجھانے کی بجائے دوبارہ ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سیاست کے میدان کارزار کو سمجھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کے بغیر اب مستقبل میں کوئی اورچارہ نہیں۔ 

تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر سینیٹر اعجاز چوہدری نے بظاہر سیاسی  جوہر میں ایک پتھر پھینکا ہے۔ ایسا جوہر جس سے تعفن اٹھ رہا تھا اب لہریں پیدا ہوچکی ہیں۔

لیکن پہلی مخالفت پارٹی کے اندر ہی سے اٹھی ہے۔

سینیٹر اعجاز چوہدری کا یہ بیان کہ لبیک سے وہ سیاسی معاملات آگے بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ سعد رضوی کی رہائی پر گلدستہ لیکر خود جائیں گے۔

لبیک کیساتھ مذاکرات میں بھی اعجاز چوہدری پیش پیش رہے۔ اعجاز چوہدری کا بیک گراونڈ ایک دین دار گھرانے کا ہے۔ سسر میاں طفیل مرحوم جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ جنکو زوالفقار علی  بھٹو نے قید کروایا اور دوران قید انکو غیر اخلاقی ازیت دی گئی۔

اعجاز چوہدری تحریک انصاف میں ضرور ہیں لیکن جب لب کشائی کرتے تو نہایت ہی نپے  تلے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ خطاب کر رہے ہوں تو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی عالم دین بول رہا ہو۔ 

سینیٹر اعجاز چوہدری سے خبر نکلوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 

جماعت اسلامی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے کا انکا فیصلہ جیسا بھی تھا مگر یہ بیان انھوں نے مستقبل کی سیاست  اور جو  جوڑ توڑ ہونا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے دیا ہے۔ اس بیان نے نیندیں تو بہت ساروں کی حرام کردی ہیں۔

قومی دھارے میں لانے کی بات بھی سچ ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

قدم اٹھ چکا ہے اور اب بال لبیک کی قیادت کی کورٹ میں ہے۔ چوائس انکی ہے کہ وہ کم برائی کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں یا زیادہ بڑی برائی جس انتطار میں ہے اس کی کسی سازش کا پھر شکار ہوتے ہیں۔ 

 حافظ سعد رضوی فرزند مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کی جانب سے علاقائی  لب و لہجے میں حال احوال پوچھنے والی سیاسی شخصیت کی جانب سے  اس بات کا عندیہ ضرور ہے  کہ یہ کڑوا گھونٹ  سیاسی بصیرت رکھنے  والے سیاستدانوں کی اکثریت نے چاہے انکی  لیڈرشپ کی منشاء ہو یا نہ ہو  پینا ضرور ہے۔

پنچھی آزاد ہونے والا ہے۔ عوامی دکھوں کا مداوا جو شہباز شریف اور پیپلزپارٹی بطور اپوزیشن نہ کرسکے وہ مولانا فضل الرحمن کیساتھ ملکر آنے والے دنوں میں سیاسی محاذ  بنانے کا  منصوبہ بھی تیار ہے۔

دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے​ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*