سلطنت عمرانیہ کے خلاف لندن پلان

Spread the love

:  ” تحریر ” میاں محسن بلال  :

بظاہر سب اچھا دکھتے پاکستان کے سول ملٹری تعلقات  میں جب تھوڑے سے تناو کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ تاک میں بیٹھے سیاسی گدھ مردار کھانے کیلئے حرکت میں آجاتے ہیں۔ ساتھ ہی پیادے بھی متحرک ہوجاتے ہیں۔  

امریکہ کے بعد جس شہر میں گیم پلان بنتا ہے وہ  برطانیہ کا  دارالحکومت لندن ۔ جہاں  سٹہ بازی شروع ہوجاتی ہے۔

لندن دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں اور قومی دولت لوٹنے والے مختلف اداروں سے منسلک افراد کی جائے پناہ بھی ہے۔ جو اپنے اپنے ممالک  میں غدار ٹھہرائے جاتے ہیں اصل میں مغربی طاقتوں کے آلہ کار ہیں انکو عزت و احترام کیساتھ رکھا جاتا ہے۔

 ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کی گرد ابھی بیٹھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ پورے پاکستان کے ریاستی نظام پر اس کے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ دنیا میں اک تماشا بنا ہوا ہے۔ ایسے میں اک ” نیا لندن پلان ” تیاری کے مراحل میں ہے۔ کوئی بھی منصوبہ بنے تو اسکا ” پی سی ون ” تیار ہوتا ہے۔ یہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاق جمہوریت کی بنیاد بھی لندن ہی تھا۔ مشرف کے خلاف تحریک کی اینٹ بھی لندن میں رکھی گئی۔

دوہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو سر منڈلاتے ہی اوہلے پڑ گئے۔ چار حلقوں میں دھاندلی پر عمران خان نے دھرنوں کا آغاز کردیا اور تقریبا ایک سال بعد سانحہ ماڈل ٹاون ہوگیا۔

اک لندن پلان تیار ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کندھا تھا اور اس پر سوار ہوئے چوہدری سرور، چوہدری برادران، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ  عمران خان اور آصف زرداری

بھی قادری کنٹینر کا سہارا لیا۔

آل پارٹیز کانفرنسز ہوئیں دونوں کئی بار تحریک منہاج القرآن کی یاترا کیلئے بھی آئے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ لندن پلان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں حصہ بمطابق جثہ مل گیا۔ یہ ضرور ہے ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

اب جو عمرانی سلطنت کے خاتمے کیلئے یا عمران خان کی انا کا ڈنگ نکالنے کیلئے اک نیا لندن پلان جو تیاری کے مراحل میں اس دو اہم کردار عمران خان کے ڈسے ہوئے ہیں۔

کون کس ایجنسی کا ایجنٹ  ہے یہ راز بھی ایک دن عیاں ضرور ہوگا۔ پہلے لندن پلان پر بھی ہر تردید کرتا رہا لیکن شیخ رشید نے اپنی کتاب ” لال حویلی سے اقوام متحدہ تک ” میں بات کھول کر رکھ دی۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور یورپی یونین کے دورے گئے۔ ساتھ ہی جہانگیر ترین لندن پہنچ گئے جہاں نواز شریف اور شہباز شریف کے ہونہار فرزند سلمان شہباز اور اسحاق ڈار موجود ہیں۔

ان سائیڈ کے مطابق کچھ کچھ بات چل نکلی ہے۔ جہانگیر ترین اور چوہدری سرور نواز حکومت کے خلاف بننے والے لندن پلان کا اہم حصہ تھے۔

ابھی ایسا ہی کچھ ہے۔ چوہدری برادران بھی تاک میں ہیں کہ کب اشارہ ہوتا ہے۔

ہاں سوال یہ ہے کہ ماحول کیسے بنایا جائے گا۔ ماحول بنانے کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں۔

سانحہ ماڈل ٹاون کے ورثاء کو انصاف نہیں ملا۔ کسی بھی وقت ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان آنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔

اگر ان سے کوئی مناسب ڈیل نہیں ہوتی تو پھر ماحول بنانے کیلئے تحریک لبیک پاکستان میں موجود ہے۔ اکیس نومبر دوہزار کی علامہ خادم حسین رضوی کی پہلی برسی ہے۔ جب امیر حافظ سعد حسین رضوی کو گرفتار کیا گیا اور چوک یتیم خانہ میں حالات کشیدہ ہوئے تو گورنر ہاوس میں مذاکرات ہوتے رہے اور چوہدری سرور کا اہم کردار رہا۔

جو نیا آتا ہے اسکی اپنی ڈاکٹرائن لاتا ہے۔ مہروں کی کمی نہیں ہوتی اس میں کچھ پیادے آزمائے ہوئے ہوتے ہیں اور اںھی کو اسائنمنٹ دی جاتی ہے۔

جہانگیر ترین کے پاس سرمایہ بھی ہے اور عمران خان کے راز بھی۔ نواز شریف اور اس کے درمیان ملاقات کا سہولت کار شہباز شریف کا فرزند سلمان شہباز۔

بظاہر سارا جمہوری عمل ہو گا لیکن حصہ بمطابق جثہ۔ عمران خان کی پاپولیرٹی گراف تو شاید کم نہ ہو جو انکو ماننے والے ہیں وہ انھی کے ہیں لیکن جب ٹکٹ لینے والے الیکٹیبلز ہی نہ ہونگے۔ کنگز پارٹی میں آزمائے پیادے شامل ہونگے۔ تو پھر تحریک انصاف کہاں پرکھڑی ہو گی؟

موکلوں اور مشیروں کے مشورے اور اپنی انا پرستی کے ہاتھوں اسیر عمران خان نے سیاسی شہید بننے کیلئے خود ہی جن سینگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسائی اسکی مخبری نے گیم پلٹ دی ہے۔ 

نئے لندن پلان کے ” پی سی ون ”  کی منظوری تک انتظار کیجئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*