امیر المومنین بننے کے بعد ملا محمد عمر کا علماء سے خطاب

Spread the love

 

:  ‘ تحریر ‘ میاں محسن بلال  :

وَ الْعَصْرِۙ(۱)اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳)

زمانے کی قسم۔ بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے۔مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔

ایک بار گراں میرے کندھوں پر ہے اور میں یہاں ہر شخص کو اسکی ذمہ داری سے آگاہ کرنے کا پابند ہوں۔ کیوں کہ یہ کام علماء کے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری جو ذمہ داری ہے وہ عسکری ذمہ داری ہے، ہم مسلح جدوجہد کر رہے ہیں اور یہی ہمارا کام ہے، جو مشن ہم لے کر چل رہے ہیں وہ شریعت کا نفاذ ہے اور شریعت کا نفاذ علماء کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کی خاطر اس آیت پر جو میں نے تلاوت کی اس پر کماحقہ عمل کیا جائے۔اور توکل محض سے کام لیاجائے۔ ہمیں اپنی سی کوشش کرنی چاہئے اس میں اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی۔ اس لیے علمائ سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ اللہ کے دین کے نفاذ کیلئے کمربستہ ہوکر مضبوط عزم اور اخلاص سے اپنی ذمہ  داری نبھائیں۔ جس ملک میں شرعی حدود نافذ ہوں تو وہاں کے حاکم بھی راہ راست پر ہوں گے، ملک میں فساد کا خاتمہ ہوگا۔

جو عالم اب بھی آکر میرا ہاتھ پکڑ کر کہے کہ میں واجب العزل ہوں یا مجھ کوئی دوسری خامی دیکھے ‘ شریعت کی روشنی میں ‘ تو اسی وقت میں استعفی دے دونگا۔

یہ جو طلبہ ہیں انھوں نے اہل حق ہونے کا دعوی کیا ہے، ان میں اگر کوئی کوتاہی ہو تو علماء کی بات ضرور سنی جاتی ہے کیوں کہ یہ طالبان کا دور ہے فسق وفجور اور طوائف الملوکی کا دور نہیں جب علماء کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ طالبان سے اگر کوئی عالم کسی کوتاہی کی نشاندہی کرے تو طالبان کو چاہئے کہ اس کوتاہی کو حتمی طور پر ختم کریں یا طالبان کے صف سے نکل جائیں۔ علماء کی ہر بات پر من و عن عمل کیا جائے گا،اس لئے علماء سے گزارش ہے کہ عزم اور حوصلے کے ساتھ اس صف میں اپنی خدمات جاری رکھیں۔ روز محشر بھی میں ان علماء کا گریبان پکڑوں گا اگر انہوں نے اپنی ذمہ داریاں صیح طرح سے ادا نہیں کیں۔

خرابی تب پیدا ہوگی جب علماء غفلت کا شکار ہوجائیں گے۔ حدود کا نفاذ علماء کی ذمہ داری ہے کیوں کہ طلبہ کے پاس احکام شرعی کا کماحقہ علم نہیں۔ علماء نئے جذبے اور نئی سوچ کے ساتھ اس تحریک کیلئے متحرک ہوں۔ سب اپنے گریبان میں  جھانکیں، روز محشر اور اللہ کے حضور حاضر ہونے کا تصور کریں۔ اگر خدانخواستہ ہم سے کوئی راہ راست سے ہٹ گیا تو انہی علماء کی ذمہ داری ہے ہمیں روک کر سیدھے راہ کی طرف ہماری راہنمائی کرے یا ہمیں صف سے ہی نکال دے۔ علماء اپنے فیصلوں پر شریعت کی روشنی میں قائم رہیں۔ میرے پاس اور کہنے کو کچھ نہیں بس یہی میرا پیغام تھا ان علماء کیلئے اور جو یہاں نہیں انکے لئے بھی۔ آپ سے گزارش ہے کہ میرا یہ پیغام ایک امانت کے طور ان تک بھی پہنچا دیں۔ وماعلینا الاالبلاغ المبین۔

یہ الفاظ ہیں امیر طالبان ملا محمد عمر کے۔ 30 مارچ 1996 کو قندھار میں افغان علماء کے عموی شوری کا ایک بڑا جلسہ ہوا جو چار دن تک جاری رہا، اسی جلسے میں علام کی جانب سے تحریک طالبان کے امیر ملا محمد عمر کو امیر المومنین کا خطاب دیا دیا۔ جلسے کے چوتھے روز ملا محمد عمر سٹیج پر آئے اور اپنا تاریخی خطاب کیا۔ ملا محمد عمر کے مخاطب علماء تھے۔ ملا عمر نے ابتداء میں سورۃ العصر کی تلاوت  کی اور علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 

میرے محترم علماء کرام اور شیوخ عظام اگرچہ میرے لئے یہ مناسب نہیں کہ آپ کے سامنے کچھ عرض کروں لیکن اس نیت سے کہ اس میں دین اسلام کا مفاد ہو۔

طلبہ نے جو یہ تحریک شروع کر رکھی ہے انہوں نے ایک بڑی ذمہ د اری اپنے کندھوں پر اٹھائی ہے۔ جس کسی صحافی،عوام و خواص علماء یا کسی دوسرے ملک کے نمائندے سے ان سے اپنی تحریک کے مشن اور ہدف کے بارے میں پوچھا ہے تو انکا ایک ہی جواب ہے کہ ہم اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں،اعلاء کلمتہ اللہ اور شرعی احکام اور حدود کا نفاذ ہمارا مشن اور ہدف ہے۔

میں نے علماء میں کچھ غفلت کا مشاہدہ کیا ہے ،ہم اللہ کی شریعت اور حدود کے نفاذ کاجو بلند دعوی کیا ہے انکا نفاذ کون گا ؟ طلبہ میدان کارزر میں داد شجاعت دے رہیں انکے ہاتھ میں اسلحہ ہے اور انکا کام یہ ہے اس زمین میں فساد کا خاتمہ ہو اور اسکو فساق و فجار سے نجات دے دیں۔ طلبا کا شریعت کے نفاذ کا نعرہ صرف اس لئے ہے کہ انکے پیچھے ملک کے علماء کھڑے ہیں۔ لیکن کچھ علماء خود کو اس سے بری الزمہ سمجھتے ہیں۔

ملا محمد عمر نے آگے چل کر یہ بھی بتایا کہ انکی تحریک کیسے شروع ہوئی اور ابتدا میں انکو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالی کی حاکمیت اور فضل پر انکو کامل یقین تھا کہ جو اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں اللہ انکے راستے آسان فرما دیتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ 

میں ایک چھوٹے مدرسے میں زیر تعلیم تھا،ہم تقریبا پندرہ بیس کے قریب کل طلباء اس مدرسے میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ اس وقت ملک میں طوائف الملوکی،قتل و غارت،لوٹ مار اور آبروریزی کے واقعات عام تھے۔ زمین فساد سے بحر گئی تھی۔ کسی کو یہ سمجھ نہیں آتا  تھا کہ ان برائیوں کا خاتمہ کس طرح کیا جائے۔ آپ نے وہ دور دیکھ لیا ہے کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ اصلاح کا راستہ کونسا ہے۔ اس لئے میرے لئے بھی قرآن کی یہ آیت کیا کافی نہیں تھی کہ لایکف اللہ نفسا اولاسعھا۔ کیوں کہ میں بالکل بے بس تھا میں کیا کرسکتا تھا لیکن میں نے یہاں توکل محض کا فیصلہ کیا، یادرکھو توکل محض کبھی ناکام نہیں ہوتا اور یہ بہت مشکل ہے۔ میں بھی علما سے توکل محض کو اختیار کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔

اس تحریک کی ابتدا اسی چھوٹے مدرسے ہوئی جہاں میں زیر تعلیم تھا۔ میں نے یہاں پڑھائی معطل کرکے اپنے ایک دوست کے ساتھ اس تحریک کے آغاز کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے ہم مدرسے سے پیدل نکلے اور سنگ حصار سے زنگاوات پہنچے۔ دونوں قندہار کے قصبے ہیں۔ زنگاوات میں تالکان سے تعلق رکھنے والے سرور نامی شخص نے سفر کے کیلئے موٹر سائیکل فراہم کی اور ہم تالکان پہنچے۔ بس یہی اس تحریک کی ابتداء تھی ۔

پھر میں نے اپنے ساتھی مولوی صاحب سے کہا کہ چلو قندہار کے چھوٹے مدارس اور مساجد کے حجروں میں مقیم طلباء کو اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ صبح ہم نے ایک مدرسے سے آغاز کیا جہاں 14 طلباء زیر تعلیم تھے۔ ہم نے انہیں اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ اللہ کے دین کی پامالی سرعام ہو رہی ہے۔ ملک میں فسق وجور قتل و غارت کا دور دورہ ہے،عام شاہراہ ہر لوگوں کو قتل کرکے لاش کو پتھروں پر رکھ دیا جاتا ہے کسی کو لاش اٹھانے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ برائیاں سرعام ہو رہی ہیں جبکہ دین پر عمل چھپ کر کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں پڑھائی نہیں ہوسکتی۔ کلمتہ اللہ کے لیے پڑھنا چھوڑنا بہتر ہے اگر واقعی آپ طلبا دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہو تو اٹھو اور عملی قدم اٹھاو کیوں کہ یہ مسائل زندہ باد اور مردہ باد سے حل ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ہم سے کسی نے مالی امداد یا ہتھیار فراہم کرنے کا وعدہ  نہیں کیا ہے۔ ہم انہیں علاقوں میں دیندار عوام سے کھانا اور مالی مدد کا مطالبہ کرینگے وہ دے دیں تو ٹھیک لیکن زبردستی کسی کے ساتھ نہیں کرینگے۔ اور ہاں اس کے بعد پڑھائی کا نہیں سوچتا کیوں کہ یہ کام ایک ہفتے مہینے اور سال کا نہیں۔ کیا کوئی تیار ہے اب ہماری تحریک میں شامل ہونے کیلئے؟

میں انکا حوصلہ بڑھانے کیلئے یہ بھی کہتا رہا کہ دیکھوان مسلح جنگجووں جو باطل و فاسق ہوکر بھی اس شدید گرمی میں اپنے مورچوں مِں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ہم اللہ کے دین کیلئے کیوں کچھ مشقت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتے ہم کیوں اللہ کے دین پر عمل اعلانیہ نہیں کرسکتے۔ اتنی غفلت اچھی نہیں۔

جب میں نے انہیں یہ بتایا کہ اسلحہ نہیں کھانے کا انتظام نہیں کسی سے مالی امداد ملنے کی توقع نہیں تو اللہ کی قسم ان 14 طلبا میں کسی نے بھی ہمارے ساتھ جانے کی حامی نہیں بھری سب نے انکار کردیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر صرف جمعہ کو کوئی کام ہو تو میں حاضر ہوں میں نے  کہا جمعے کے بعد کون کرگا؟ اللہ شاہد ہے کہ واقعہ اس طرح ہے اور بروز محشر اللہ کے حضور بھی یہی گواہی دونگا۔

اگر میں اس مدرسے کو دوسرے مدارس پر قیاس کرتا تو میں واپس اپنے مدرسے آجاتا لیکن یہ توکل محض کا نتیجہ تھا کہ میں نے ہار نہیں  مانی،میں نے اللہ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس پر وفاکی اور اللہ نے مجھے سرخرو کیا۔ خیر اس کے بعد ہم ایک اور حجرے کی طرف چل پڑے۔ جہاں پانچ یا سات طلبا تھے انکو بھی ہم نے اسی طرح سخت شرائط بتائیں لیکن ان تمام سات طلبا نے اپنے نام لکھوا لئے۔ اب دیکھیں کہ دونوں مدارس تھے ایک علاقے ایک زبان اور الحمداللہ ایک امت تھے ایسا نہیں تھا کہ اول الذکر بچے تھے اور آخرالذکر جوان یا وہ جوان تھے اور یہ بوڑھے یا وہ مرد تھے اور یہ خواتین۔ اہل جماعت کا مکمل طور پر انکا کرنا اور ایک کا مکمل طورپر ساتھ دینا یہ ابتداء ہی میں میرے لئے ایک امتحان تھا۔ یہی ابتداء تھی اس تحریک کی۔

مختصر یہ کہ عصر تک ہم اسی موٹر سائیکل پر طلبا کو دعوت دیتے رہے۔ اس طرح کل 53 افراد نے ہمارے پاس اپنے نام لکھوالئے۔ توکل محض کے نتیجے میں 53 افراد تیار ہوئے جنکو میں نے ہدایت کی کہ آپ سب کل سنگ حصار آجائیں لیکن وہ رات کو تقریبا ایک بجے کے قریب ہی سنگ حصار پہنچ گئے۔ یہی تحریک کی ابتداء تھی۔صبح ہی ہمارےایک ساتھ مولوی صاحب امامت کیلئے فجر کی نماز پڑھانے گئے نماز کے بعد انکے مقتدی نے مولوی صاحب کو اپنا خواب سنایا کہ میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے علاقے سنگ حصار میں فرشتے تشریف لائے ہیں۔ صبح 10 بجے حاجی بشیر نے ہمیں دو گاڑیاں دیں جس میں ہم میوند کے علاقے کشت نخود گئے یہاں بہت سے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ اس کے بعد ہم نے کہیں سے پانچ کہیں سے تین کلاشنکوف لوگوں سے خریدے اور کہیں کوئی ساتھ مفت میں اسلحہ دینے پر آمادہ ہوجاتا۔ یہاں ہماری تعداد بھی بڑھتی گئی اور تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہ توکل محض کا نتیجہ ہے جو بالکل ناکام نہیں ہوتا۔

اس لئے میری علماء سے گزارش ہے کہ وہ توکل محض اختیار کریں کیونکہ ہم نے جو اس ملک میں شریعت کے نفاذ کا نعرہ لگایا ہے یہ علماء کرام کے بغیر ممکن نہیں۔ کیوںکہ علام کو ہی دین مبین کا اچھی طرح علم ہے اور وہی شرعی احکامم کی گیرائی اور گہرائی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لئے علماء مضبوط عزم کے ساتھ اب کمر باندھ کر میدان میں آئیں۔ کیونکہ ہمارے طلبا کم درجے کا علم رکھنے والے طلبا بھی ہیں انکی تربیت سمیت ہماری نئی نسل کی تربیت بھی علام کی ذمہ داری ہے۔ اس تحریک میں علام کو نہایت ہی اخلاص سے کام کرنا چاہئے۔ میں علماء سے صرف وہ عذر قبول کرنے کا پابند رہوں گا جو عذر اللہ کے نزدیک قابل قبول ہوں۔ محض کہنے سے کوئی معذور نہیں کہلا سکتا۔

اللہ تعالی کی ذات پر توکل محض ہی تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں 48 ملکوں کے ہمراہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ملا عمر نے علماء سے یہ جو خطاب کیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امارات اسلامی افغانستان کا نظام کیا ہوگا۔طالبان کے پہلے پانچ سال کے دور میں بتایا جاتا ہے کہ قتل و غارت،انتشار،دست درازی،عصمت دری اور منشیات جیسے واقعات کا مکمل خاتمہ ہوگیا تھا۔ ملا محمد عمر نے علماء کو انکی اہمیت سے آگاہ کیا۔

لیکن اگر پاکستان میں نظر دہرائی جائے تو ہمارے یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ علماء اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں اور حکمران شریعت کی پیروی کرنانہیں چاہتے ہ۔ شریعت کانفاذ ہوگیا تو پھر انکا کیا بنے گا۔

ملا محمد عمر کا یہ خطاب تھا پھر وہاں پر فیصلے بولے. ہمارے یہاں تبدیلی کے علمبردار فقط تقریں کرتے ہیں لیکن تبدیلی نظر نہیں آتی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*