کپتان بلیک میل ہوگیا

Spread the love

: انسائیڈسٹوری :

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جن شخصیات کے قول و فعل اور کردار بارے مثالیں دی جائیں گی ان میں سے ایک عمران خان ہیں۔ جو 22 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد بہت کم اکثریٹ کے ساتھ پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم بنے۔ 2018 کے انتخابات میں انکی جماعت نے قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں 156 ووٹ حاصل کئے ۔ ق لیگ،ایم کیو ایم،گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، بلوچستان عوامی پارٹی اور آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے 371 کے ایوان میں 181 نشستیں تحریک انصاف نے جیت کر حکومت بنائی۔ آزاد امیدواروں کے علاوہ پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ق لیگ اور راہ حق پارٹی ہے۔
بطور وزیر اعظم انھوں نے ہر اس بات سے یوٹرن لیا جس پر وہ اپوزیشن میں رہ کر سابقہ حکومتوں تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اپنی ہر دوسری سے تیسری تقریر یا میڈیا کو دیئے انٹرویو میں جو باتیں مسلسل انھوں نے کیں وہ ایک یہ تھی کہ کسی کو این آر او نہیں دونگا اور کسی سے بلیک میل نہیں ہونگا۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ وہ بلیک میل ہوگئے۔ اب بے شک اسکو سیاسی مصحلت یا اتحادی جماعتوں سے مفاہمت کا نام دیں۔ جبکہ ق لیگ کے کامل علی آغا کو پنجاب سے سینیٹ کی سیٹ کیلئے نامزد کیا گیا۔
الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست کے حصول کے لیے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کو گولڈن فگر کہتے ہیں۔
تین سو اکہتر کی اسمبلی کو اگر سات پر تقسیم کیا جائے تو گولڈن فگر 53 بنتا ہے۔پنجاب اسمبلی میں اس وقت حلف شدہ ارکان کی تعداد 367 ہے۔
موجودہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے 181 ارکان ہیں۔ دوسری بڑی جماعت ن لیگ ہے جس کے ارکان کی تعداد 165 ہے ۔
10 ارکان کے ساتھ ق لیگ تیسری بڑی جماعت ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے سات ، راہ حق پارٹی کا ایک اور آزاد امیدوار 4 ہیں۔
گولڈن فگر 53 کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی 181 نشستوں کے تناسب کو دیکھاجائے تو اسکے حصے 3 جنرل نشستیں آتی ہیں اور 22 ارکان بچتے ہیں۔
6 منخرف لیگی رہنما نکال دیئے جائے تو 165 میں سے مسلم لیگ ن کے پاس 159 ارکان ہیں اور 53 کو تین کے ساتھ ضرب دی جائے تو بنتا ہے 159 ۔ یعنی گولڈن نمبر کے حساب سے مسلم لیگ ن کو بھی ملتی ہیں تین نشستیں۔
اس فارمولے اور گولڈن فگر کو دیکھا جائے تو بغیر کسی سیاسی جوڑ توڑ کے ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی ایک ایک نشست تحریک انصاف اور ن لیگ کے حصے میں آئے گی۔
سینیٹ کی ساتویں جنرل سیٹ کے لیے ،،، تحریک انصاف کے پاس بائیس ارکان ،ق لیگ کے 10،پیپلزپارٹی کے 7،آزاد 4، راہ حق پارٹی کا ايک، منخرف ن لیگی گروپ کے چھ ارکان ہیں ۔
گنتی کے حساب اور گولڈن فگر کو دیکھا جائے تو ق لیگ اس دور میں دکھائی نہیں دیتی۔ ہاں بشرطیہ کے وہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے اندر موجود فاروڈ بلاک کو ساتھ ملا کر مشترکہ امیدوار نہ لے آئے۔
لیکن مشیران کے مشورے سے عمران خان نے اپنی جماعت کے 22 ارکان ق لیگ کیلئے تیاگ دیئے۔ جس سے وقتی طور پر ق لیگ کے شکوے تو دور ہو گئے مگر یہ تاثر کیسے کپتان ختم کرے گا کہ وہ جلد بلیک میل بھی ہوجایا کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*