ان ہاؤس اور کھیل ختم ۔۔۔؟

Spread the love

: تحریر: میاں محسن بلال 

قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں اس وقت تحریک انصاف کےپاس 156 ارکان ہیں۔ ن لیگ کے 83، پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے 54، آزاد امیدوار 4، متحدہ مجلس عمل کے 15، مسلم لیگ ق کے 5، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے 7، گریںڈ ڈیموکریٹک الائنس کے 3، بلوچستان نیشنل پارٹی کے 4، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، جمہوری وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کا ایک ایک ارکان اسمبلی ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو استعفی دینے کیلئے دی جانے والی ڈیڈ لائنز سمیت احتجاجی جلسے اور ریلیاں پھولے غبارے میں ہوا ثابت ہوئے۔ ہوا نکل گئی تو چئیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور انکے والد ایک زرداری سب پر بھاری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز سامنے آئی۔

نمبر گیم کے تناسب کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے ووٹوں کو ملا لیا جائے تو 152 ووٹ بنتے ہیں۔ ایم کیو ایم، سات،ق لیگ کے پانچ، ووٹ ملا لئے جائیں تو 164 فگر بن جاتا ہے اور وزیراعظم کیلئے 172 ووٹوں کا ہونا ضروری ہے۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم کو اشارے کی ضرورت ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی اک اشارے پر بیٹھی ہے۔ حاصل یہ اشارہ ہوا تو عدم اعتماد منظور ۔

سیاسی مبصرین جہاں پاکستان کی سیاست میں انہونی ہونے پر متفق ہیں وہیں اس بات پر بھی مقتدرہ اور سیاسی جماعتوں کے قریب سمجھے جانے والے صاحب رائے یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت اس وقت تک گھر نہیں جاسکتی جب تک کہ اسٹیبلشمنٹ نہ چاہئے۔ چاہئے بڑے بڑے جلسے ہی کیوں نہ کر لئے جائیں۔ عمران خان کے 126 دن کے دھرنے کا اس وقت تو نتیجہ نہ نکلا تاہم ن لیگ کی پانچ سالہ مدت پوری ہوئی تو 2018 میں تحریک انصاف کی لاٹری نکلی۔

ملک میں جاری موجودہ سیاسی ہلچل،دگرگوں معاشی حالات، عمران خان سے اتحادی جماعتوں کی ناراضگی اور اپوزیشن  جماعتوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک بہت چھوٹے سے کینوس پر اتری تصویر کے سوا کچھ نہیں۔ کینوس پر یہ تصویر دیکھی جائے تو تین چھوٹے عکس ابھرتے ہیں ۔ نمبر ون : مارشل لاء،دوسرا طریقہ وزیراعظم عمران خان کا استعفی اور تیسرا ان ہاوس تبدیلی اور اسکے بعد کہانی ختم۔

سنئیر تجزیہ کار نجم سیٹھی نے ؛ ان ہاوس اینڈ گیم ؛ کے عنوان سے دی فرائیڈے ٹائمز ؛ میں مضمون لکھا ۔

 مارچ میں سینیٹ انتخابات کے بعد جب یہ مرحلہ آجائے گا ، تو میلٹیلیشمنٹ اور پی پی پی دونوں اپنے اپنے حربوں اور حکمت عملی کو ترک کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ اینڈ گیم اب بھی  ان ہاوس  تبدیلی کے ساتھ شروع ہوگی۔

پہلے دو آپشن کیوں نہیں ہوسکتے نجم سیٹھی نے تجزیے میں جو دلیل دی ہے

وہ کچھ یوں ہے۔

آج ، مارشل لاء کے خلاف تیار کردہ طاقتور عوامل موجود ہیں۔ پہلے ، فوج کے ذریعہ منتخب کردہ اور اس کی حمایت کرنے والی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو تیز کرنے کے لئے ایک مقبول مخالف  جذبات ہیں۔ دوسرا ، ایک دہائی قبل بحالی عدلیہ کی تحریک کے بعد ، موجودہ بار اور بنچ کسی دوسرے بغاوت کرنے والے جنرل (مشرف کے مقدمے کی سماعت اور قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے کی سماعت کرنے والے) کے سامنے پیشی کا امکان نہیں ہے۔ تیسرا ، کوئی بھی جنرل اس قدر بیوقوف نہیں ہوگا کہ آج اس کی معاشی حالت میں ملک پر ہاتھ رکھے اور ذاتی اور ادارہ جاتی  ناکامی کا خطرہ ہو۔ در حقیقت ، یہ کٹھ پتلی ہائبرڈ حکومت کے ذریعہ بالواسطہ

حکمرانی کا انتخاب کرنے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔

یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ عمران خان کو  کسی بھی حالت میں استعفی دینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔  جب تک کے ان کی پارلیمانی اکثریت برقرار ہے۔ عمران کو اب ایسا کیوں کرنا چاہئے خاص طور پر جب ملٹی اسٹیبلشمنٹ ان کی حمایت کر رہی ہے اور اپوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے۔

نجم سیٹھی کی یہ دونوں دلیل مان لی جائے تو اس پر بھی خواہش اور زرداری سب پے بھاری والا تاثر زیادہ ملتا ہے۔

اصل کہانی ادارے کے اندر ہی کہی چھپی ہوئی اور جسکا عمران خان سمیت زرادری اور نواز شریف کے کسی پیادے کو بھی علم نہیں۔

اچانک جنرل باجوہ اور انکے فیملی کی جانب توپوں کا رخ ہوگیا ہے۔ زمینوں اور پلاٹوں کی کہانیاں سوشل میڈیا پر زبان زد عام ہو رہی ہیں۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ گیم کا کھلاڑی کوئی اور ہے ، جس کے سامنے تمام آپشنز موجود ہیں۔ یہ کہنا کہ اپوزیشن متحرک ہے،بار اور بینچ مضبوط ہے۔ سول سوسائٹی انہونی پر خاموش نہیں رہے گی۔ عمران خان کے پیارے بھی اندرون خانہ باتیں کرینگے۔ یہ سب بے معنی ہے۔ ان ہاوس تبدیلی ہوبھی گئی تو پھر بھی مارشل لاء جیسے خطرے کو ٹالا نہیں جاسکتا۔

چین اور امریکہ کی گریٹ گیم میں اک کھلاڑی ریاست پاکستان بھی ہے۔ ریاست کے خلاف جس نے جو بویا اسے ضرور کاٹنا پڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے  کہ  اس بار قدرت کس کے ساتھ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*