ٹیکس کا نظام ، حِصہ بقدر جُثہ

Spread the love

: تحریر ، لالہ صحرائی : 

کسی بھی قوم کے آئین کی رو سے ریاست میں ہر کوئی برابر کا شہری ہوتا ہے، سہولیات اور مفادات پر ہر ایک کا برابر کا حق ہوتا ہے تو پھر ریاست کے اخراجات بھی سب کو برابری کی بنیاد پر اٹھانے چاہئیں مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ اکثریت بچوں، خواتین اور بوڑھوں پر مشتمل ہوتی ہے، پھر جو جوان طبقہ بچتا ہے اس میں بھی اکثریت بیروزگاروں کی ہوتی ہے۔
جن لوگوں کو ریاست کے منتظمین منتخب کرنے کیلئے ووٹ کا حق دیا گیا ہے ان پر براہ راست یہ ذمہ داری آجاتی ہے کہ وہ جنہیں منتخب کر رہے ہیں انہیں انتظامات چلانے کا خرچہ بھی مہیا کریں مگر یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ ان میں بھی اکثریت خواتین، بیروزگار اور بوڑھوں کی آجاتی ہے تو پھر ریاست کا خرچہ کون اٹھائے؟
تیسرا آپشن یہ بچتا ہے کہ جو لوگ ریاست کے انتظامات سے فائدہ اٹھا کے اچھی آمدنی کر رہے ہیں وہ یہ خرچہ اٹھا لیں لیکن اس میں بھی کچھ مسائل آتے ہیں:
ایک یہ کہ کوئی بھی اپنی آمدنی بتانے یا تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوگا کہ وہ اچھا کماتا ہے۔
دوسرا، یہ ٹیکس پچاس فیصد بھی عائد کر دیا جائے تو بھی ریاست کے اخراجات اٹھانے کیلئے ناکافی ہوگا۔
تیسرا، بزنس میں ہر وقت نفع نہیں ہوتا، نقصان کی صورت میں اور کساد بازاری کے حالات میں بقدر ضرورت انکم ٹیکس نہیں مل سکتا۔
پھر، یہ نظام ناپائیدار ہوگا، مثلاً کسی ریاست میں آدھا ٹیکس دے کر رہا جا سکے تو کمانے والے وہاں جا سکتے ہیں، جو پیچھے ایک خلا چھوڑ جائیں گے۔
پانچواں، یہ انصاف پر مبنی نہیں کہ صرف چند لوگ ٹیکس دیں اور باقی نہ دیں۔
اور آخری یہ کہ دفاعی لحاظ سے یہ ایک سنگین غلطی ہوگی کہ سارے انڈے جس ٹوکری میں رکھ دیں وہ برے وقت میں ٹوکری اٹھا کے کہیں اور چلا جائے۔
یہ چھ بنیادی مسائل ہر ایک ریاست کو درپیش تھے لہذا بہت سوچ سمجھ کے ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے جس میں ریاست کو چلانے والا ٹیکس آمدنی کی بجائے اخراجات پر نافذ کیا جاتا ہے کیونکہ اخراجات ناگزیر ہوتے ہیں، آمدنی چھپائی جا سکتی ہے لیکن اخراجات نہیں چھپائے جا سکتے۔
کسی بندے نے بیشک چھپ چھپا کے ایک کروڑ روپیہ کما لیا ہو لیکن جب وہ اس رقم سے مکان، دکان یا گاڑی یا جو کچھ بھی خریدنے نکلے گا اس پر ٹیکس لازمی دے گا اور اس آمدنی کا حساب بھی الگ سے دے گا۔
۔۔۔۔
جس ٹیکس سے ملک چلتا ہے وہ اصل میں قوم کے اخراجات پر لاگو ہوتا ہے، اسے سیلزٹیکس کہتے ہیں جس کی شرح صرف سترہ فیصد آف دی اخراجات ہے۔
جس کے اخراجات کم ہیں وہ امیر کی نسبت کم ٹیکس دے گا، جس کے اخراجات زیادہ ہیں وہ غریب کی نسبت زیادہ ٹیکس دے گا مگر ان دونوں کا بوجھ اٹھانے کا لیول ایک جیسا رہے گا یعنی سترہ فیصد۔
یہ نہایت انصاف کی بات ہے کہ ٹیکس کی ذمہ داری غریب نے اپنے سماجی قد یا مالی قوت کے مطابق اٹھانی ہے اور امیر نے بھی اپنے قد یا قوت کے مطابق ہی اٹھانی ہے مگر شرح ٹیکس دونوں پر برابر رہے گی۔
مثلاً ایک مزدور تین لاکھ روپے سالانہ کما رہا ہے تو وہ اس رقم کو خرچ کرتے وقت اشیائے صرف پر سترہ فیصد ٹیکس ادا کرے گا، اور جو بندہ تیس لاکھ روپے سالانہ کما رہا ہے وہ اس رقم کو خرچ کرتے وقت بھی سترہ فیصد ہی ٹیکس دے گا، یہی ٹریٹمنٹ سالانہ تیس کروڑ کمانے والے پر لاگو ہوگی۔
دوسرا انصاف یہ ہے کہ ان تینوں طبقات کی کمائی میں جو فرق ہے اس کو لیول کرنے کیلئے ایک بنیادی کمائی کو فری رکھ کے بقیہ پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے، جو ایک لگژری ٹیکس ہے اور صرف لگژری انکم پر ہی لگتا ہے، بیسک انکم ان سب کی فری آف ٹیکس رہتی ہے جس کی موجودہ شرح چھ لاکھ روپے سالانہ ہے۔
تیسرا انصاف یہ ہے کہ کمائی انسان کی قابلیت اور ماحول پر موقوف ہے، لہذا ریاست اپنے بجٹ میں تعلیم کو بہتر کرے گی تاکہ انسانی قابلیت میں اضافہ ہو اور پسماندہ علاقوں کا انفراسٹرکچر بہتر کرنے کیلئے پی۔ڈی۔ایس۔پی پروگرام چلائے گی تاکہ آبادی کا ارتکاز شہروں کی طرف ہونے کی بجائے قوم اپنی اپنی جگہ پر رہ کر بھی بہتر کمائی کرسکے۔
ٹیکس کلیکشن میں چوتھا انصاف یہ ہے کہ اشیائے صرف کی قیمت کو ہر ایک کیلئے برابر رکھا جاتا ہے، اس میں گورنمنٹ ویلیو ایڈیشن نہیں کرنے دیتی، مثلاً آپ ایک گھڑی بنا کے بیچتے ہیں تو یہ جتنی مہنگی بکے گی گورنمنٹ کو اتنا ہی زیادہ ٹیکس ملے گا، یہی طریقہ تمام لگژری آئٹمز پر اختیار کیا جاتا ہے مگر جہاں بنیادی گھریلو ضرویات یعنی اشیائے صرف کا معاملہ ہو وہاں قیمت فروخت سب کیلئے یکساں رکھی جاتی ہے۔
سیلزٹیکس کے قانون میں تیسرے شیڈیول کے اندر ایسی درجنوں اشیاء کا ذکر ہے جنہیں بنیادی ضروریات قرار دیکر ان کی قیمت ایک حد تک منافع ڈال کے فکس کر دی جاتی ہے، ایسی تمام اشیاء کی پیکنگ پر قیمت+سیلزٹیکس لکھ دیا جاتا ہے، جس سے زیادہ قیمت وصول نہیں کی جا سکتی، ان میں چینی، گھی، تیل، دودھ، پتی، نمک، مرچ، مصالحے، ٹوتھ پیسٹ، جوسز، کولڈڈرنک، بسکٹ وغیرہ شامل ہیں اور آٹا، سبزی، دودھ، گوشت وغیرہ کو فری آف ٹیکس رکھا جاتا ہے، ان میں صرف برانڈڈ آٹے پر آدھا ٹیکس لگتا ہے۔
یعنی ہر آدمی کو مہینے بھر کی سبزی، دال، گوشت پکانے یا کسی مہمان کو چائے بسکٹ پیش کرنے پر جو خرچہ امیر کا آتا ہے وہی غریب کو آئے گا، یہ انصاف صرف سیلزٹیکس کے تھرڈشیڈیول کی بدولت قائم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
قوم نے بھاری ٹیکسوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، یہ صرف ایک پروپیگنڈہ ہے، جو اپوزیشن اور بزنس۔پرسنز نے مل کے مچا رکھا ہوتا ہے، حقیقت میں یہ عین انصاف پر مبنی ٹیکس سسٹم ہے جس کے اندر ہر امیر غریب بنیادی ضروریات زندگی پر صرف سترہ فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے اور جو نہیں کما رہا وہ ٹیکس بھی نہیں دے رہا، بیروزگار افراد کا ٹیکس انہیں خرچہ مہیا کرنے والے والدین یا اولاد اٹھاتی ہے۔
اس کے علاوہ جو کچھ بھی مارکیٹوں میں موجود ہے وہ لگژریز آف لائف سے متعلق ہے اس میں سے جو بھی چیز آپ خریدیں گے اس پر ویلیو ایڈڈ ٹیکس ادا کریں گے، آپ فالتو ٹیکس سے بچنا چاہتے ہیں تو فالتو چیزیں مت خریدیں، حکومت کا کسی پر کوئی دباؤ نہیں ہوتا کہ آپ نے تیس لاکھ روپے سالانہ کمائے ہیں تو انہیں لازمی خرچ بھی کر دیں تاکہ اسے ٹیکس مل جائے۔
لیکن جب کبھی بھی اپنی ویلتھ میں پڑی یہ رقم آپ خرچ کریں گے تو حسب قانون آپ کو ٹیکس دینا پڑے گا کیونکہ قومی ٹیکس صرف خریداریوں پر ہی لاگو ہوتا ہے۔
امیر طبقہ جو پچیس لاکھ روپے سالانہ یا اس سے زیادہ کماتا ہے وہ اپنی ساری آمدنی خرچ کردے تو چھیالیس فیصد ٹیکس ادا کرے گا جو بیرونی دنیا کے مقابلے میں دس فیصد کم ہے، جبکہ ہرکوئی پوری آمدنی تو خرچ نہیں کرتا لہذا ان کی ٹیکس ایوریج تیس فیصد تک رہتی ہے۔
جس بندے نے اس ریاست کے انتظام سے دو سو کروڑ روپے کما کے شادی پر لگائے ہیں، اس نے اب تک صرف اس لگژری انکم پر انکم ٹیکس ہی ادا کیا تھا، اس رقم کو خرچ کرنے پر مزدور کی طرح قومی ٹیکس ادا کرنا ابھی باقی تھا جو فروخت کنندگان یا سروس پروائیڈرز نے وصول کرکے حکومت کو جمع کرانا تھا۔
کسی بھی طرح کی سماجی سرگرمیوں پر ہونے والے اخراجات بلاشبہ اکانومی میں بہتری لاتے ہیں، غریب لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اسلئے شریعت اسلام نے دولت کے ارتکاز اور جمع کرنے کو ناپسندیدہ اور قابل مواخذہ قرار دیا ہے، لہذا خرچنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر قومی ٹیکس ادا نہ کرکے ریاست اور عوام کا حق مارنا قابل مواخذہ عمل ہے۔
دو سو کروڑ والی شادی پر چیف کمشنر لاہور نے اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بڑی محنت سے ڈیٹا اکٹھا کرکے خود ہاتھ ڈالنے کی بجائے اسلام آباد کو رپورٹ کیا ہے جو بلاشبہ قابل تحسین ہے، وہ یہ بات سمجھتی ہیں کہ بڑے لوگوں کو ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہوتا اسلئے ایف۔بی۔آر یا مرکزی حکومت کو اب یہ ٹیکس وصول کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جس کی مالیت پینتیس کروڑ کے قریب بنتی ہے۔
جو لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں وہ ان بزنس۔پرسن کی وجہ سے کرتے ہیں جو ٹیکس وصول کرکے نہیں دیتے، جن لوگوں نے فوٹوگرافی کی مد میں ایک کروڑ روپیہ وصول کیا ہے ان پر اب سترہ لاکھ روپے ٹیکس کی ادائیگی واجب ہے، خواہ وہ اپنی کمائی میں سے ادا کریں یا اس بندے سے وصول کر کے دیں جس نے انہیں کام دیا تھا، شادی میں انوالو نکاح خواں سمیت بقیہ لوگوں کا بھی یہی ٹریٹمنٹ ہے۔
سیلزٹیکس چونکہ قوم کی وہ بنیادی ذمہ داری ہے جس سے ریاست کا انتظام چلتا ہے اور اس انتظام کی بینیفشری بھی عوام ہی ہے، اسلئے یہ قانون فوجداری نوعیت کا ہے یعنی سیلزٹیکس کی چوری کریمینل ایکٹیویٹی ہے جس پر فوجداری پروسیڈنگ ہوتی ہے، اس پر وارنٹ گرفتاری اور جیل بندی بھی ہو سکتی ہے جبکہ انکم ٹیکس کا قانون سول ایکٹ ہے اس میں فوجداری پروسیڈنگ نہیں ہوتی لہذا ہر بزنس۔پرسن کو اپنی چیز یا خدمات بیچتے وقت سیلزٹیکس لازمی وصول کرکے جمع کرانا چاہئے ورنہ اسے جوابدہ ہونا پڑے گا۔
نوٹ:
یہ بلاگ ٹیکس سسٹم کو سمجھنے کیلئے لکھا گیا ہے، اس پر کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتے ہیں، ٹیکس کلیکشن کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچ رہا تو منتخب نمائندوں سے سوال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس پوسٹ پر ریاست کے خلاف کسی قسم کی بحث اور پارٹی بازی پر مشتمل تبصروں کی اجازت نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*