امریکہ کا صدر: ٹرمپ یا بائیڈن؟ طلبا کیلئے دلچسپ معلومات

Spread the love

: تحریر۔ پروفیسر شبیر احمد خان : 

دُنیا میں امریکی صدر کے علاوہ کوئی ایک مُنتخب عہدہ ایسا نہیں ہے جس کےانتخاب کا حق پچیس کروڑ لوگوں کے پاس ہو جو امریکہ کی کُل آبادی سے صرف نو کروڑ کم ہیں۔ ان پچیس کروڑ میں سے ساٹھ فی صد تو ضرور ووٹ ڈالتے ہیں جیسے اس مرتبہ اصل انتخاب کی تاریخ تین نومبر سے پہلے تقریباً نو کروڑ اپنا ووٹ کاسٹ کرچُکے ہیں، پانچ کروڑ سے زیادہ لوگوں نے ڈاک کے لفافوں میں ووٹ پوسٹ کۓ اور باقی چار کروڑ کے قریب وہ ووٹرز ہیں جنہوں نے ابتدائی ووٹنگ کا فائدہ اُٹھایا اور لمبی لمبی لائنوں سے بچ گۓ اور جب موقع ملا اپنا ووٹ پولنگ بوتھ پر جاکر ڈال آۓ۔ یہ کل ڈالے جانے والے ممکنہ ووٹوں کا ساٹھ فی صد بنتا ہے۔ گویا اب الیکشن کے دن نومبر تین کو ایک دن میں ڈالے گۓ ووٹ ان سے کم ہونگے یعنی تقریباً آٹھ کروڑ سے زیادہ نہیں۔
امریکی صدارت کے لۓ انتخابات ہر چار سال کے بعد لیپ کے سال یعنی جس سال کے دن تین سو چھیاسٹھ ہونگے اور فروری کا مہینہ پورے اٹھائیس کی بجاۓ اُنتیس دن کا ہوگا تو نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں اگر وہ منگل پہلے سوموار کے بعد آۓ، گویا نومبر کی پہلی تاریخ کو اگر منگل آجاۓ تو پھر آٹھ نومبر کو الیکشن ہوگا جو پہلے سوموار کے بعد آۓ گا۔ گُذشتہ دو سو بتیس سال سے یہ عمل بغیر کسی رخنے یا تبدیلی کے جاری ہے۔ اور اب پینتالیس صدر، ویسے چوالیس افراد اس عہدے پر براجمان رہے، گروور کلیو لینڈ واحد امریکی صدر ہیں جو ایک مرتبہ صدر بنے اور پھر ایک ٹرم وقفے کے بعد دوبارہ صدر بن گۓ تو ان کو بائیسواں اور چوبیسواں صدر مانا جاتا ہے، باقی اور کئی صدور جنہوں نے مسلسل دو ٹرمز لیں اُن کو ایک بار ہی گنا جاتا ہے۔ کیا تین نومبر کو ہونے والے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ جیت کر پینتالیس ویں صدر برقرار رہیں گے یا جوڑف بائیڈن چھیالیسویں امریکی صدر بننے کا اعزاز حاصل کریں گے، یہ جلد پتہ چل جاۓ گا۔
صرف وہ افراد جو ایک دن کم پینتیس سال کے ہوں اور امریکہ میں پیدا ہونے کے باوجود امریکہ میں رہنے کی مُدت ایک دن کم چودہ سال رہی ہو امریکہ کے صدر نہیں بن سکتے باقی سب امریکی صدر بن سکتے ہیں۔ اب تک کے چوالیس صدور میں، ایک کے علاوہ سب گورے تھے، ایک کیتھولک تھا، ایک کنوارہ تھا، ایک کے دانت اصلی نہیں تھے، ایک بھی نامرد نہیں تھا (کوئی عورت صدر نہیں بنی ہے)، ایک ایسا تھا جس کا کزن بھی صدر رہا تھا (کُل دو کزن ہوگۓ) ، ایک تھا جس کا پوتا بھی صدر بنا، ظاہر ہے کہ ایک ہی تھا جس کا دادا بھی صدر رہا، صرف دو ایسے تھے جن کے باپ بھی صدر تھے اور ظاہر ہے دو ہی ایسے تھے جن کے بیٹے بھی صدر بنے، کسی صدر کی بیوی صدر نہیں بنی، صرف ایک صدر ان پڑھ تھا، ایک صدر ایسا بھی تھا جو وائٹ ہاؤس میں نمونیا ہونے سے فوت ہوا(کُل چار صدور صدارت کی مُدت پوری ہونے سے پہلے وائٹ ہاؤس میں طبعی موت مرے) ، گولی پانچ صدور کو لگی، صرف ایک بچا باقی ہلاک ہوگۓ۔ ایک بھی صدر ابھی تک مواخذے کے ذریعے ہٹایا نہیں جاسکا، صرف ایک صدر تھا جس نے استعفی دیا، صرف ایک صدر ایسا تھا، جو بغیر الیکشن کے صدر بنا (رچرڈ نکسن نےاپنے نائب صدر ایگنیو کے مُستعفی ہونے کے بعد جیرلڈ فورڈ کو نائب صدر نامزد کیا، بعد میں رچرڈ نکسن خود مستعفی ہوگیا تو آئین کی رو سے جیرلڈ فورڈ امریکہ کا اٹھتیسواں صدر بنا)۔ صرف ایک صدر ایسا تھا جو معذور تھا اور اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا ، صرف ایک صدر تھا جو چار بار صدارت کا الیکشن جیتا اور اس کے علاوہ کوئی ایک بھی تین بار یا چار بار امریکہ کا صدر نہیں بنا۔ دو دفعہ یا دو ٹرم کیلۓ تو بیس سے بھی ایک زیادہ افراد صدر بنے۔ صرف ایک صدر بعد میں کانگریس کے بھی ممبر رہے، چودہ نائب صدر بھی صدر بنے، آٹھ صدر کی وفات کی وجہ سے، ایک صدر کے استعفی کی وجہ سے ، اور باقی پانچ الیکشن جیت کر۔ کتنوں کی داڑھیاں تھیں، کتنوں کی مونچھیں تھیں اور کتنے تھے کہ نہ داڑھی تھی اور نہ مونچھ، اور بُہت سی ذاتی باتیں
جانے بغیر ہم امریکی صدر کے الیکشن پر بات کرتے ہیں۔
امریکی صدر کا انتخاب
امریکی صدر کے انتخاب کا طریقہ نہایت مُنفرد ہے۔ اسے دوبار الیکشن میں جانا ہوتا ہے ۔ پہلی بار والے الیکشن کو ابتدائی یا بُنیادی الیکشن کہتے ہیں جس کا مقصد اپنی پارٹی ہی میں موجود دوسرے امیدواروں سے مقابلہ ہوتا ہے جسے نامزدگی کے لئے انتخاب کہتے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں اسی ابتدائی انتخاب کے ذریعے اپنے اپنے امیدوار کا چُناؤ کرتی ہیں، پورے ملک میں ، یعنی پچاس ریاستوں میں انتخابی مُہم چلائی جاتی ہے جو ڈیڑھ سال پر محیط ہوتی ہے اور اس میں ایک پارٹی کے درجن سے زیادہ امیدوار ہوتے ہیں جن میں سے صرف ایک نے نامزدگی لینی ہوتی ہے کہ وہ پھر آگے چل کر نومبر میں ہونے والے ‘عام انتخابات ‘ میں دوسری مخالف جماعت کے نامزد امیدوار کا مُقابلہ کرسکے۔ پرائمری یا ابتدائی انتخابات کی نگرانی اور ووٹوں کی گنتی کا طریقہ کار وہ ہی ہوتا ہے جو نومبر کے عام انتخابات کا طریقہ کار ہے اور وہ ہی الیکشن کمیشن یا الیکشن بورڈ پرائمری انتخابات کی ذمہ داری لیتا ہو جو پھر نومبر کے عام انتخابات کی بھی نگرانی کرے گا۔ پارٹی امیدوار کی نامزدگی کیلۓ پرائمری الیکشن اور کمپیئن میں اٹھارہ ماہ کا عرصہ لگتا ہے جبکہ عام انتخاب چند گھنٹوں میں ایک ہی دن مکمل ہوجاتا ہے۔ ہاں ایک روایت دونوں جماعتوں میں ہے کہ اگر موجودہ صدر اپنی پہلی چار سالہ مُدت کے اختتام پر دوسری باری الیکشن میں حصہ لینا چاہے تو اُسے اپنی پارٹی میں نامزدگی کیلۓ دوبارہ پرائمری الیکشنز میں نہیں جانا پڑتا۔
امریکی صدارتی الیکشن دو ہزار بیس۔
دو دن بعد امریکی صدارتی انتخاب ہونے جارہا ہے، اسی روز چھتیس کے قریب سینیٹرز (ممبر سینٹ)، چار سو پینتیس لوئر ہاؤس کے ممبران، اکثریتی ریاستوں میں گورنرز، اکثریتی ریاستوں کی مجالس قانون ساز، اور لاکھوں مقامی حکومتوں کے ممبران اور ہزاروں نئے قوانین جن کی منظوری براہ راست عوام دیتے ہیں یعنی ریفرنڈم کا فیصلہ بھی ہونے جارہا ہے، اور ساتھ نائب صدر کا انتخاب بھی ہوگا۔ اور ہر دو سال بعد صرف صدر اور نائب صدر کے علاوہ جو چار سال کیلۓ منتخب ہوتے ہیں، باقی بیان کردہ تمام افراد کے انتخابات کو وسط مُدتی یعنی مڈ ٹرم الیکشن کہا جاتا ہے۔
انتخابی ادارہ یا الیکٹرول کالج
عوام براہ راست ووٹوں کے ذریعے صدر اور نائب صدر کا انتخاب نہیں کرتے ۔ صدر اور نائب صدر کا انتخاب ایک انتخابی ادارہ یا الیکٹرول کالج کرتا ہے۔ لیکن یہ صرف دکھاوے کا عمل ہے ورنہ جدید میڈیا کی وجہ سے عملی طور پر ان دونوں عہدے پر انتخاب براہ راست ہونے کے برابر ہی ہوگیا ہے۔ اس ادارے کے ارکان کی تعداد کانگریس کے ارکان کی تعداد کے برابر ہوتی ہے، سینٹ جس کے سو ارکان ہیں، اور ایوان نُمائندگان جس کے چار سو اڑھتیس ممبران ہیں اور کُل ملا کے ان کی تعداد پانچ سو اڑھتیس ہوجاتی ہے کے برابر تعداد ہے اُس انتخابی ادارے کی جو صدر کا انتخاب کرتا ہے اور صدر کو مُنتخب ہونے کے لۓ پچاس فی صد سے ایک ووٹ زائد یعنی دو سو ستر ووٹ لازماً درکار ہوتے ہیں، ورنہ ایوان نمائندگان ایک ریاست ایک ووٹ کی بُنیاد پر تین سب سے زیادہ الیکٹرول کالج کے ووٹ لے جانے والوں میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے۔ ایسا تین بار ہوچُکا ہے، نائب صدر کو اس صورت میں سینٹ مُنتخب کرتی ہے۔
الیکٹرول کالج کے ممبران جو تین نومبر کو منُتخب ہوں گے، اُن کا تعلق کسی اور آئینی ادارے یعنی کانگریس سے نہیں ہوتا۔ وہ سواۓ صدر اور نائب صدر کو ووٹ دینے کے علاوہ کوئی اور آئینی فریضہ سر انجام نہیں دیتے، اور صدر اور نائب صدر کو ووٹ دینے کے بعد یہ ادارہ معدوم ہوجاتا ہے۔ صدر اور نائب صدر کے نام ایک ہی بیلٹ پیپر پر ہوتے ہیں، یعنی جس پارٹی کا صدر مُنتخب ہوجاۓ اُسی پارٹی کا نائب صدر منتخب ہوتا ہے۔ اس الیکٹرول کالج کے ممبران کی تقسیم ریاستوں کی بُنیاد پر کی گئی ہے۔ ایک ریاست کے جتنے ممبرز کانگریس میں ہیں اُن کے برابر تعداد ان الیکٹرول کالج کے ممبران کی ہے۔ مثال کے طور پر فلوریڈا ریاست کے کُل اُنتیس ممبران کانگریس میں ہیں یا ٹیکساس کے اُنتالیس ممبران ہیں، اس کے برابر ان ریاستوں کی نمائندگی الیکٹرول کالج میں ہے۔ یعنی اس تعداد کے برابر دونوں سیاسی جماعتیں الیکشن بورڈ کو ایک فہرست جسے وہ سلیٹ کہتے ہیں دیتی ہیں، مطلب یہ کہ تین نومبر کو لوگ ویسے تو ریپبلکن پارٹی کے اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیک پینس جن کا انتخابی نشان ہاتھی ہے اور سُرخ رنگ ہے جبکہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے اُمیدوار جوزف بائیڈن اور کملا ہاریس اور ان کا رنگ نیلا ہے کو ووٹ دے رہے ہوں گے لیکن فلوریڈا میں جیتنے کی صورت میں فلوریڈا ریاست کے لۓ مُختص سارے الیکٹرول کالج کے اُنتیس ووٹ جیتنے والی پارٹی کو مل جائیں گے۔ ریاست کے عام انتخاب میں جیتنے کے لۓ پچاس فی صد سے زائد ووٹ لینے کی شرط نہیں ہے، فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ کے اصول کے تحت ایک ووٹ بھی زیادہ لینے والی پارٹی کو اُس ریاست کے تمام الیکٹرول کالج کے ووٹ مل جاتے ہیں۔
ویسے تو الیکشن کی شام کو ہی ٹی، وی، چینلز پروجیکشن کردیتے ہیں کہ کون جیتا اور کون ہارا ہے، کونسی ریاست نیلی ہے اور کونسی سرخ، اور اگر ایک امیدوار کُل الیکٹرول کالج کے نصف سے ایک ووٹ زائد یعنی کُل پانچ سو اڑھتیس میں سے دو سو ستر حاصل کرلے تو میڈیا اُس کی جیت کا اعلان کردیتا ہے۔ ہارنے والا اُمیدوار اپنی ہار تسلیم کرتے ہوۓ تقریر کرکے جیتنے والے کو اُس کی فتح کی تقریر سے پہلے مبارک باد پیش کرتا ہے۔
آئینی طور پر ابھی انتخاب مُکمل نہیں ہوتا، جو کہ دسمبر کے تیسرے ہفتےعموماً دسمبر کی اٹھارہ تاریخ کو الیکٹرول کالج کے تمام مُنتخب ممبران اپنی اپنی ریاستوں کی مجالس قانون ساز میں جمع ہوکر صدر اور نائب صدر کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ جو بند ڈبوں میں سیل کرکے واشنگٹن ڈی، سی، میں ایوان نُمائندگان بھیج دیۓ جاتے ہیں اور ایوان کا سپیکر اُن ووٹوں کی گنتی کرتا ہے، اور نتیجہ کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ اس ساری کاروائی کی ایک چھوٹی سی یک کالمی خبر بھی کسی اخبار میں نہیں چھپتی۔ ٹیلی ویژن پر دکھانا تو دور کی بات۔ اصل میں عام انتخاب کی رات ہار جیت کا فیصلہ ہوچُکا ہوتا ہے ، جیتنے والا صدر اگلے سال بیس جنوری کو اپنے عہدہ کا حلف انجیل ہر ہاتھ رکھ کر چیف جسٹس آف سُپریم کورٹ کے سامنے اُٹھاتا ہے، لاکھوں امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوتے ہیں اور کروڑوں امریکی اُسے براہ راست ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔
ٹرمپ یا بائیڈن ؟
امریکی صدارتی الیکشن کے بارے میں پیش بینی یا پیش گوئی کرنا دُنیا کا سب سے آسان کام ہے اور اس کے لۓ زیادہ ماہرین اور افراد کی ضرورت بھی نہیں صرف دو افراد یہ بتا سکتے ہیں کہ کون سی پارٹی جیتے گی۔ میں اور میرے بڑے بھائی کئی سالوں سے یہ پریڈِکشن کرتے آۓ ہیں اور ایک بار بھی ہم دونوں بھائی غلط ثابت نہیں ہوۓ، اب بھی ہماری پیش گوئی یہ ہے ۔ بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ جوزف بائیڈن جیت جاۓ گا اور میرا پکا فیصلہ یہ ہے کہ ٹرمپ جیت جاۓ گا۔ اس بار بھی ہم دونوں بھائی ہی متوقع امریکی صدر کا فیصلہ کریں گے۔ مذاق سے ہٹ کر، امریکہ میں پیشگی سروے کے سینکڑوں ادارے ہیں جو دونوں امیدواروں کی متوقع کامیابی کے آنکڑے یا اندازے لگاتے رہتے ہیں۔ بعض اندازے دُرست بھی نکل آتے ہیں ، امریکی صدارتی الیکشن کے ماہر پروفیسر اور اندازے لگانے والوں کے اُستاد پروفیسر رائس اب تک بارہ سے زیادہ سواۓ دو ہزار کے الیکشن کے علاوہ سب صحیح صحیح پری ڈکٹ کر چُکے ہیں۔
اب تک کے تقریباً تمام سرویز کے مُطابق جو بائیڈن کی برتری ڈونلڈ ٹرمپ پر سات فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ سر ویز پر اعتبار کریں تو جو بائیڈن واضح اکثریت سے الیکشن جیت رہے ہیں۔ اگر پروفیسر رائس کے فارمولے پر آئیں جو زیادہ تر دو باتوں پر بیس کرتا ہے، ایک مُعیشت ، اور دوسرے شُہرت، ٹرمپ کووِڈ وباء کے باوجود مقابلے پر ہے۔
اگر سازشی تھیوریوں کی بات کریں تو ڈیپ سٹیٹ ایک نسبتاً سافٹ امیج والے کو سامنے لا کر اپنی ناکام ہوتی ہوئی ریاست اور جمہوریت کو ایک آخری سہارا دینا چاہتی ہے۔ اور اسی طرح کی ایک سازشی تھیوری کی ہی بُنیاد یہ ہے کہ ابھی ڈیپ سٹیٹ کا ایجنڈا مَکمل نہیں ہوا، اور شاید ابھی ٹرمپ کو دُنیا میں کئی اور جنگیں کرنے اور دُنیا کو ایک نئے سرے سے تشکیل دینے کے لۓ استعمال کیا جانا باقی ہے۔
چالیس سال سے اس سیاسیات کے مضمون کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے ہو گۓ ہیں، یہاں تک کہ یہ تحریر لکھنے کے لۓ ایک لائن کہیں سے نہیں پڑھنی یا دیکھنی پڑی، مگر اتنا کنفیوزڈ ہوں کہ نہیں بتا پارہا کہ کیا ہوگا۔ اس کی صرف دو وجوہات ہیں یا ایک ہی وجہ ہے جو دوسری وجہ کی بھی وجہ بن گئی، اور یہ ہے کووِڈ اُنّیس ، جس نے یہ مُمکن بنایا کہ تین نومبر کے عام انتخاب والے دن سے پہلے ہی نو کروڑ سے بھی زیادہ ووٹرز اپنا حق دہی استعمال کرچُکے ، اس سے پہلے امریکہ کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
اس بات کا امکان تو سرے سے نہیں ہے کہ فوج مُداخلت کرے یا کوئی اُمیدوار انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرے۔ البتہ اس مرتبہ یہ خدشہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا عمل زیادہ دن جاری رہے اور مقابلہ اتنا قریب قریب ہو کو جب تک آخری ووٹ نہ گنا جاچُکا ہو تو نتیجہ کا اعلان ہو۔ سُن دو ہزار کے الگور بمقابلہ بُش کے فیصلہ میں امریکی سُپریم کورٹ یہ قرار دے چُکی ہے کہ ووٹ ڈالنے کے عمل سے زیادہ ووٹوں کی دُرست اور آئینی گنتی کا عمل نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بھی امکان ہے کہ بیلٹ پیپرز کے ایشو پر ڈونلڈ ٹرمپ عدالت چلا جاۓ۔ میری مُراد اس امکان سے ہے کہ تین نومبر کی رات کوئی فتح وشکست پر مبنی ایک تقریر بھی نہ ہو۔
اگر پاکستانی دیہاتی مُشاہدے کی تھیوری کی بُنیاد پر پرکھوں جس کے تحت شکل کی اہمیت دو چند ہے کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں بننا چاہتے ہو مگر شکل شیشہ میں دیکھی ہے؟ مُجھے کملا حارث کی شکل لگتی نہیں کہ کُرسی نائب صدارت پر بیٹھے۔ جوزف بائیڈن کی لُکس صدارتی ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ انسان لگے نہ لگے لیکن صدر لگتا ہے وہ بھی امریکہ کا۔ لیکن آپ پریشان نہ ہو میں نہ سہی بڑے بھائی تو سچے ثابت ہونگے، انسان ہے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔
نوٹ: پروفیسر شبیر احمد خان جامعہ پنجاب میں 40 سال سے  تاریخ اور سیاسیات کے مضمون کو پڑھا رہے ہیں۔ ان انھوں نے تاریخ اور سیاست کے طالب علموں کے لۓ یا جو لوگ امریکی صدارتی انتخابات سے دلچسپی رکھتے ہوں یا وہ طلبہ و طالبات جو مقابلے کے امتحان میں کامیاب نہ ہونا چاہتے ہیں یہ مفصل تحریر لکھی۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*