اب کی بار این آر نہیں بلکہ این آر ٹی سی یا پھر مارشل لاء

Spread the love

 

: انسائیڈ اسٹوری :

جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں تب سے کئی  بار اپنے سلطان راہی اسٹائل میں وہ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ کرپٹ مافیا کو ہرصورت پکڑوں گا۔ 

انکو کوئی رعایت نہیں ملے گی نہ ہی کسی قسم کا این آر او دونگا۔ پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں  کہ این آر او  ہے؟  پھراس کے بعد 

#NTRC

پر بات کرینگے کہ اگر این آر او نہیں تو پھر اگر نیا عمرانی معاہدہ ہوا تو وہ  کیا ہوگا ہے؟ اسکا ماڈل کیا ہے؟ اور سب سے پہلے یہ آئیڈیا کب موضوع بحث بنا؟کیا قوم کو احتساب کے نام پر پھر بیوقوف بنانے کیلئے تو سرگرمیاں شروع نہیں ہورہیں؟ یا پھر موجودہ پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ یعنی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم نے جو حالیہ حکومت کے خلاف مہم شروع کی ۔ جس کے پہلے گوجرانوالہ میں منعقدہ جلسہ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 11 بار جنرل باجوہ کا نام لیا اور ملک کے تمام تر حالات کا ذمہ دار قراردیا اس کے بعد جو صورتحال بنی ہے۔ یہ چہ مگوئیاں تیز ہوگئی ہیں کہ جو ملک کے حالات ہیں،بارڈر کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ سب کو ایک پیج پر آنا ہوگا اور مذاکرات کرنے ہونگے۔ حل نکالنا ہوگا۔ نہیں تو پھر جمہوری بستر گول ہوگا۔ یا پھر حالات سنگین مارشل لاء کی طرف چل نکلیں گے۔ 

   آتے ہیں این آر او کی جانب۔ 

پانچ اکتوبر  2007 میں دبئی کے ہوٹل میں اک خفیہ میٹنگ ہوئی۔ جس میں ایک معاہدہ کیا گیا۔ یہ این آر او یعنی قومی مفاہمی آرڈیننس کہلایا۔ معاہدے کے تحت یکم جنوری 1986 سے لیکر 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لا کے درمیانی دور تک کے ان سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اوربیوروکریٹس کو معافی دی گئی جن پر دنگا فساد،منی لانڈرنگ ، قتل اور دہشت گردی کے الزام تھے یا یہ ان سنگین جرائم میں ملوث تھے۔ ان افراد میں فضل الرحمن، سابق صدر آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت یہ چیدہ چیدہ شخصیات شامل تھیں۔

• Altaf Hussain 

تاہم اس قانون کو 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیر قانونی قرار دیا۔

این آر او میں ثالث کون تھا یہ اک راز ہی رہتا اگر صحافی سلیم شہزاد جنکی 30 مئی 2011 میں پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین میں نعش ملی اپنی کتاب ؛ انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان؛ میں انکشاف نہ کرتے ۔ گو کہ این آر او کی ڈیل میں اور بہت سے کردار بھی شامل تھے جنکا مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ؛ سچ تو یہ ہے ؛ میں ذکر بھی کیا ہے۔
سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں لکھا کہ جب این آر او ہوا تو اس میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی شامل تھے۔ جو جنرل مشرف کی طرف سے ثالث بنے۔ 

جب 2008 میں محترمہ بے نظیر کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ مشرف رخصت ہوئے۔ایوان صدر میں آصف علی زرداری براجمان ہوئے۔امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی تعینات کئے گئے ۔رحمن ملک وفاقی وزیر داخلہ بنا دیئے گئے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدت ختم ہونے کے بعد 3 سال کی مزید توسیع دی گئی۔

پھر 30 اکتوبر 2011 کو عمران خان نے مینار پاکستان میں یادگار جلسہ کیا اور ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی۔لیکن اس وقت شاید منظور نہیں تھا۔ مئی 2013 کے الیکشن میں پنجاب اور وفاق میں ن لیگ کی حکومت بن گئی۔ پھر کیا تھا دھرنوں اور احتجاجوں کی سیاست شروع ہوئی۔

اس دوران  سازشی تھیوریوں نے سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ ایمپائر کی انگلی کے چرچے ماند ہوئے تو پانامہ کا ہنگامہ آگیا۔ نواز شریف جو تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے انکو 28 جولائی 2017 کو نااہل قرار دیا گیا۔ باقی کی کہانی سب کے سامنے ہے کہ سال بھر کیا ہنگامہ ہوتا رہا۔

تاہم الیکشن 2018 سے 2 ہفتے پہلے نواز شریف اپنی بیمار اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو بیماری کی حالت میں لندن کے ہسپتال میں چھوڑ کر بیٹی مریم نواز کے ہمراہ گرفتاری کیلئے پاکستان پہنچ گئے۔ اڈیالہ جیل ہی میں تھے کہ 25 جولائی کو تحریک انصاف الیکشن میں کامیاب ترین سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی اور عمران خان کی خواہش پوری ہوئی۔ بلآخر وہ ملک کے 22 ویں  وزیر اعظم بن گئے۔

اس دوران اک سازشی تھیوری نے کافی زور پکڑا اور یہ پھیلایا گیا کہ کوئی نئی ڈیل یا این آر او ہونے جارہا ہے اور سعودیہ عرب اس میں ثالث ہوگا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ 11 ستمبرکو لندن کے ہسپتال میں بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں۔

اس سازشی تھیوری نے اور زور پکڑا ۔ نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو پانچ روزہ پیرول پر رہائی ملی۔ مدت ختم ہونے کے بعد نواز شریف اڈیالہ جیل گئے اور عمران خان خصوصی طیارے پر سعودیہ عرب روانہ ہوئے۔ اور پھر سازشی تھیوری مارکیٹ میں آئی  کہ بیل آؤٹ پیکج جو سعودیہ عرب دے گا اصل میں وہ رقم ہوگی جسکی ڈیل ہوئی ہے یعنی لوٹی ہوئی ملکی دولت کا کچھ حصہ لوٹا کر نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل ہوجائے گی۔ انکو رہا کردیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تینوں کی سزا معطل کردی۔

شریف فیملی میں نیب کے نئے شکار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہوئے۔ ان سمیت  دیگر لیگی رہنما مریم نواز، رانا ثنااللہ،حمزہ شہباز ،شاہد خاقان عباسی،مفتاح اسماعیل ،خواجہ سعد رفیق وغیرہ  کو  گرفتار کرلیا گیا۔اس کے ساتھ ہی سابق صدر آصف علی زرداری اور انکی بہن فریال تالپور کی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتاری اور بعد میں ضمانت پر رہائی ہوئی۔ جبکہ سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ابھی جیل میں ہیں۔  اسی صورتحال کے تناظر میں عمران خان نے باربار اعلان کیا کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دینگے۔ میاں نواز شریف کے بعد سابق صدر آصف زرداری نے بھی میڈیا پر آکر کہا کہ ان سے عمران خان سے این آر او  مانگ کون رہا ہے؟

ابھی یہ سب سلسلہ جاری ہی تھا کہ نیب کی حراست میں سابق وزیر اعظم کی پچھلے سال اکتوبر میں حالت خراب ہوگئی۔ انکو ایمرجنسی میں  لاہور کے سروسز ہپستال منتقل کیا گیا۔ جہاں وہ 13 روز تک زیر علاج رہے۔ اس دوران انکے پلیٹ لٹس میں اتارچڑھاو رہا۔ بلآخر انکو شہبازشریف کے ساتھ علاج کیلئے لندن 50 روپے کے حلف نامے پر عدالت نے بھجوادیا۔

 

اس کے بعد کورونا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان متاثر ہوا،شہباز شریف لندن سے پاکستان پہنچے اور اب پھر نیب کی حراست میں ہیں۔ تاہم نواز شریف کے  بعد مریم نواز کو باہر بھجوانے کی گارنٹی دی گئی لیکن لندن میں نواز شریف کی سرگرمیاں دیکھ کر وزیر اعظم عمران خان بتایا جاتا ہے کہ ڈٹ گئے کہ اب کوئی رعایت نہیں۔ مریم نواز کو ایک بار پھر نیب نے طلب کیا اور وہاں پر پتھراو ہوا۔ ان واقعات کا تسلسل جاری ہی تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر سے جب ایک پریس کانفرنس میں پوچھا گیا کہ اگر عمران خان کسی کو بھی این آر او نہیں دے رہا تو ڈان لیکس میں مریم نواز اور اب نواز شریف کو لندن بجھوانے کا این آر او کس نے دیا ؟ جس پر انکے منہ سے نکل گیا کہ ‘ محکمہ زراعت ‘ سے پوچھیں۔ جس پر رات گئے انکو وضاحت دینا پڑی۔۔

 مولانا فضل الرحمن متحرک ہوگئے اور پی ڈی ایم بن گئی ،نواز شریف نے اپنا سیاسی بیانیہ شروع کردیا۔ لیکن کراچی میں کیپٹن ر صفدر کی گرفتاری اور آئی سندھ مشتاق مہر کے اغواء کی خبروں نے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔ بلاول بھٹو کے مطالبہ پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوٹس لیا اور کورکمانڈر کراچی کو واقعہ کی انکوائری کا حکم دیا۔  

سیاسی بیٹھکوں اور مقتدر حلقوں میں دو تھیوریاں گردش میں ہیں۔ جن کے مطابق واقعی ہی وزیر اعظم عمران کسی کو بھی #NRO نہیں دینگے نہ ہی کوئی یہ لے گا۔ اس تناظر میں  سب کا  بھرم بھی قائم رہ جائے ۔ ایک تھیوری مفاہمتی نظریے کی بازگشت سنا رہی  ہے۔ جسکا فریم ورک کیا ہوگا؟کیسے ہوگا اس کے بارے میں کچھ حلقے متحرک ہیں۔ اس مفاہمتی  نظریے کو ؛ نیشنل ٹرتھ اینڈ  ری کنسلیشن کمیشن ( NTRC )؛ کا نام دیا جاتا ہے یا کچھ اور۔ ۔۔؟ 

نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے قومی اسمبلی میں  خطاب کے دوران پہلی بار

نیشنل ٹرتھ اینڈ  ری کنسلیشن کمیشن ‘

 بنانے کی بات کی۔تاکہ پاکستان بننے کے بعد کیا کچھ ہوتا رہا ہے وہ قوم کے سامنے لایا جائے اور اپنے معاملات ٹھیک کئے جائیں۔

یہ فارمولا 1996 میں پہلی بار ؛جنوبی افریقہ ؛ میں متعارف کرایا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ قومی یکجہتی اور مفاہمت کو فروغ دیکر ملکی معاملات کو آگے بڑھایا جاسکے۔اسکو ٹرتھ اینڈ ری
کنسلیشن کمیشن  کا نام دیا گیا۔
عمران خان کے اردگرد نیب زدہ وزرا اور مشیران، زرداری اور شہبازشریف سمیت دیکرسیاسی رہنماوں کی کرپشن، ملکی معشیت کے دگرگوں حالات اور خطے کی سیاسی صورتحال سمیت مولانا فضل الرحمن اور  پی ڈی ایم اے کی سرگرمیاں۔ ایسے میں ادارے سمیت عسکری قیادت کو متنازعہ بنانے کی مسلسل کوشش کرنا یہ سب اشارے کسی انہونی  کا پیش خیمہ ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر کوئی نیا عمرانی معاہدہ تشکیل نہیں پاتا۔ عمران خان نے اپنی انا کو ریاستی مفادات کے آگے سرنگوں نہیں کرتے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف،انکی دختر مریم نواز اپنے بیانیہ کی عار میں عسکری قیادت کو  متنازعہ بنانے کی ڈگر سے نہیں ہٹتے تو پھر عمرانی معاہدہ تو ممکن نہ ۔ تاہم اس موجودہ نظام کا بوریا بستر گول ضرور ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ریاست جس ادارے کے دم سے ہے اس
میں خلافت کا نظام ہے۔ آرمی چیف کو تنقید کرنا مطلب ہے پوری فوج کو تنقید کرنا۔ 
تحریر: میاں محسن بلال 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*