مہذب معاشر ے کاادھورا خواب

Spread the love

 

 

تحریر: معظم احمد

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو روئے زمین پر اپنا نائب مقرر کرکے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشا،سمجھ بوجھ عطاء کی جو ہمیں کائنات میں موجود دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔پاکستان جیسے آزاد ملک میں پیدا ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں میں سے ہے جہاں سر سبزوشاداب اور لہلاتے کھیت اور چاروں موسم آتے ہیں۔شاید لوگوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباء نے لا تعداد قربانیاں دی ہیں اب اسکی حفاظت اور ترقی کی ذمہ داری ہماری ہے۔اگر ہم اپنے فرائض سے غفلت برتیں گے تو ملک کی ترقی و خوشحال ا صرف خواب بن کر رہ جائے گی۔

دوسری طرف غور کریں تو کئی ایسی اخلاقی برائیاں نظر آتی ہیں جومہذب معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ہماری بنیادی تعلیم میں سکھایا جاتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے جبکہ آج جگہ جگہ گندگی کے ڈھیرہماری اخلاقی گراوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔بارش اللہ کی رحمت ہے اور اس کے لیے دعائیں بھی خوب مانگی جاتی ہیں۔لیکن بارش کے بعد کیا ہوتا ہے سڑکوں پر پانی کھڑا ہو تو لوگ اپنے گھروں کا کوڑا بنا سوچے سمجھے اس میں پھینک دیتے ہیں اور جب یہ پانی اترتا ہے توگلی کوچے گندگی سے بھرے دکھائی دیتے ہیں جو مختلف بیماریوں کاسبب بن کر بچوں اور بڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔اکثر یہ کوڑا کرکٹ گٹروں میں پھنس کر نکاسی آب کا باعث بنتا ہے، پانی سڑکوں پر کھڑا رہنے سے بدبو اور تعفن پھیلتا ہے۔مہذب معاشرے پر بڑے بھاری الفاظ کا بھاشن دینے والے افراد کی بے حسی کی انتہا اس وقت اپنے عروج پر ہوتی ہے جب حکومت کی جانب سے رکھے کوڑے دانوں کو نظر انداز کر کے گھر وں اوردفاتر کا کوڑااس (کوڑے دان) کے ارد گرد پھینکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔سب جانتے ہیں عصر حاضر میں انسان اس قسم کی کئی غیر اخلاقی حرکات کا روز ہی مرتکب ہوتاہے۔مثال کے طور پہ ٹریفک قوانین کی پابند ی نہ کرنا ہم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔یہاں سگنل توڑنا،ایمبولینس کو رستہ نہ دینا،گاڑی چلاتے وقت پیدل چلنے والوں کا خیال نہ رکھنا تو معمول کی باتیں ہیں بلکہ مزیداری کی بات تو یہ ہے کہ جہا ں لکھا ہو نو پارکنگ ہم اپنی گاڑیاں بھی وہیں پارک کر کے خود میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ایسی ہی ایک مثال بینک کی ہے جہاں پہلے ہی سہولیات کا فقدان ہے رہی سہی کسر سفارشی نکال دیتے ہیں۔بینک میں بل جمع کروانے کے لئے بچے،بڑے سب ایک ہی لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں جبکہ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ بزرگ شہریوں کو مزید سہولت دی جائیں تاکہ انہیں دھکے نہ کھانے پڑیں۔ہمارے بزرگ اس پر بھی قناعت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قطار میں کھڑے ہو کر ہی بل جمع کروانے پر راضی ہیں لیکن دکھ اس بات کا ہوتاہے جب کوئی سفارشی قطار کی پرواہ کئے بغیر سب کو پیچھے چھوڑتا ہوا اپنا کام نکلوا نے کے لئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ آج سب حکمرانوں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑکا تمام تر ملبہ حکومتی اداروں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ معاشرہ کو سدھارنے کی ذمہ داری صر ف حکمرانوں کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔ہمیں چاہئے کہ ان چھوٹی چھوٹی برائیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اقدامات کریں اور لوگوں کو آگاہی فراہم کریں تاکہ ایک صاف ستھرے اور ترقی یافتہ پاکستان کی تعمیر کی جا سکے۔آج کی تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگااور اپنے عملی اقدامات کے ذریعے وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے کوشش کرنا ہو گی۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے،جوہم کر سکتے ہیں، تو وہ دن دور نہیں جب ہم دنیا کے نقشہ پہ ایک مہذب اور ترقی پسند قوم بن کر ابھریں گے۔ہمیں چاہئے کہ ان سب برائیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنے آپ سے شروع کریں اور آئندہ اس بات کا خیال رکھیں کہ معاشرہ جن تقاضوں کی ہم سے توقع رکھتا ہے انہیں ہر حال میں پورا کریں اور اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے گلی محلوں کو صاف رکھیں، ٹریفک قوانین کی پابندی کو اپنا شعار بنائیں اور بینک میں بل جمع کرواتے وقت پہلے آنے والوں کا خیال رکھیں۔جب تک ہم اپنے آپ کو ان باتوں کا عادی نہیں بنائیں گے ہمارا وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*