شادی کی پہلی ہی رات بیوی کے مشورے نے زندگی بدل دی

Spread the love

 

اسلام آباد کے ایک مشہور و معروف مارکیٹ میں اپنے بھتیجوں اور بھتیجیوں کیلئے کچھ کپڑے وغیرہ لے رہا تھا کہیں پسند نہیں آرہے تھے تو کہیں پسند آنے کے بعد قیمت ہوش اُڑا دیتے اِسی سرگردانی میں ایک دُکاندار میری باتوں سے سمجھ گیا کہ اتنا خوار کیوں ہورہا ہوں. بچوں کے کچھ سوٹ سامنے رکھے اور کہا کہ پسند کرلو قیمت کا بعد میں تعیُن کرلیں گے. اتنے میں بار والا( دُکانوں اور ٹھیلوں کو چائے بہم پہنچانے والے کو کہتے ہیں اصل لفظ باہر والا ہے) آیا تو اُس دُکاندار نے ہمارے لئے چائے بھی منگوائی. میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ صحیح سیانا کاروباری ہے خالی ہاتھ جانے نہیں دے گا کہ اتنے میں اُن کی آواز آئی کہ کونسے سوٹ پسند ہیں؟ میں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پسند تو سارے آئے ہیں مگر میری استعداد………… اتنی ہے
اُنہوں نے کہا کوئی بات نہیں اِن سب سوٹس کو مَیں اگر آپ کو آپ کے حساب سے دوں تو پھر بھی مجھے اتنا…….. منافع ہے اسلئے اگر کہو تو پیک کردیتا ہوں مَیں نے کہا مجھے اور کیا چاہئے باقی دُکاندار اسکے ڈَبل مجھ سے مانگ رہے تھے اور آپ اس قیمت پر راضی ہیں تو بِسْمِ اللہ
جب تک وہ سامان پیک کرتا چائے بھی آگئی اور چائے پیتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ کیا اِس طرح کاروبار کرنے سے آپ کے کاروبار کو نقصان نہیں ہوگا؟ وہ ہلکے سے مُسکان کے ساتھ کہنے لگے یہ ایک کہانی ہے اگر آپ کے پاس وقت ہو تو سُنا دیتا ہوں؟ مَیں نے کہا کہ میرے پاس وقت ہی وقت ہے لیکن آپ کے پاس گاہک آتے رہیں گے تو مُشکل ہوگا
کہنے لگے وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں وہ باقی لڑکے سنبھال لیں گے
عرض کیا پھر مَیں بھی ہمہ تن گوش ہوں
تھوڑا سا خاموش رہے جیسے ماضی کو کھوج رہا ہو اور بات شروع کرنے کیلئے واقعات کا سِرا نہیں مِل رہا ہو یا الفاظ کو یکجا کررہا ہو
کہنے لگے میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا والدین نے بڑی مشکلات سے مجھے پڑھایا لکھایا اور جب میں عمر کے اُس حصے میں پہنچا کہ جب والدین کو سہارا دینے کا وقت تھا تو بی اے کرنے کے بعد نوکری ملنے کیلئے بھاگ دوڑ شروع کی جو کہ بے نتیجہ نکلی کسی نے والدین کو مشورہ دیا کہ بیٹے کی شادی کرادیں اس سے آپ کے بیٹے کہ قسمت کھل جائے گی اور میری شادی اپنے ہی خاندان میں ایک بہت ہی سُگھڑ اور اچھی لڑکی سے ہوگئی
شادی کی پہلی رات کو ہی دُلہن نے کاروبار کرنے کا مشورہ دیا لیکن میں نے کہا کہ میرے پاس تو پھوڑی کوڑی تک نہیں جو کچھ تھا وہ شادی کے اخراجات کے مَد میں چلا گیا
بیوی نے کہا کہ ضروری تو نہیں کہ کاروبار لاکھوں کروڑوں سے شروع کیا جائے آپ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار بھی تو شروع کرسکتے ہیں
میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پھر کہا کہ یہی تو مسئلہ ہے کہ چھوٹے کاروبار کے لیے بھی تو کچھ نہ کچھ رقم کی ضرورت تو ہوتی ہے میرے پاس وہ بھی نہیں اوپر سے بابا نے شادی کا حکم جاری کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں بالکل بیروزگار ہوں
نئی نویلی دلہن صاحبہ نے مایوس، ناامید اور غصہ ہونے کی بجائے فیصلہ کُن لہجے میں حکم صادر فرمایا کہ اگر ہمت ہے تو میرے پاس سلامی کے جو چند ہزار روپے جمع ہوئے ہیں اسی سے کاروبار شروع کر سکتے ہو
مَیں تھوڑی دیر کے لیے خاموش رہا پھر کہا کہ ٹھیک ہے لیکن کاروبار اپنے گاؤں میں نہیں پنڈی یا اسلام آباد میں شروع کروں گا
بیوی کو کوئی اعتراض نہیں تھا اس طرح شادی کے چند دنوں بعد ہی کوئی لائحہ عمل طے کئے بغیر میں اسلام آباد آیا اور کاروبار کے متعلق معلومات لینے کبھی چھولے والے کے پاس تو کبھی فروٹ یا سبزی والے کے پاس، کبھی پھول بیچنے والے کے پاس تو کبھی کھلونے بیچنے والے کے پاس جاتا اور ہر جگہ سے یہی جواب ملتا کہ اس کاروبار میں کچھ بھی نہیں رکھا
اسی خجل خواری میں جو چند ہزار روپے تھے وہ بھی خرچ ہوتے گئے یہاں تک کہ صرف ہزار روپے میرے پاس بچ گئے تھے اسلئے سوچا کہ کاروبار تو کر نہیں سکا کیوں نا واپس چلا جاؤں
حساب لگایا کہ اگر ہزار میں سے کرایے کے پیسے نکال لوں تو باقی کا ایک سوٹ بیوی کیلئے بطورِ تحفہ خرید لیتا ہوں اسلئے مختلف دکانوں میں گھومتا رہا مگر ہر سوٹ میرے قیمت خرید سے مہنگا ہوتا آخر کار اِس دکان میں جس میں ابھی آپ بیٹھے ہو آگیا یہاں لیڈیز اور بچوں کے سوٹ ملتے تھے میں سب کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا رہا مگر میرے مقصد کا سوٹ ایک بھی نہیں تھا
اتنے میں دُکان کے مالک نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا جو تھوڑی دیر پہلے میں نے آپ کے ساتھ کیا بس
فرق یہ تھا کہ انہوں نے مجھ سے ساتھ میں پریشانی کا سبب بھی پوچھ لیا
میں نے ساری رام کہانی اُن کو سنادی
اُن کو سب حاجی صاحب کہتے تھے
حاجی صاحب نے کہا کہ ابھی آپ کے پاس ہزار روپے ہیں؟
جی میں نے جواب دیا
حاجی صاحب نے ایک لڑکے کو آواز لگائی کہ فلاں فلاں بچوں کے تین سوٹ اُتار کر لے آ
وہ لڑکا جب تک سوٹس لے کر آتا حاجی صاحب نے ایک رسی اور چند کیل بمعنی ہتھوڑے کے ایک دراز سے نکالے اور اٹھ کر کہا میرے پیچھے آؤ
میں کسی روبوٹ کی طرح اُن کے پیچھے چل پڑا
وہ دکان کیوں کہ کارنر پر تھا اسلئے حاجی صاحب نکلتے ہی دائیں طرف مُڑے اور دکان کی دیوار پر کیل ٹھوکنے لگے. دونوں کیلوں کو کچھ فاصلے پر ٹھوک کر رسی کے دونوں سِروں کو دونوں کیلوں سے باندھا اور پھر وہ بچوں کے تینوں سوٹس دکان سے لیکر اس رسی پر ٹانک دیا اور کہا کہ یہ تینوں سوٹس ٧٥٠ روپے کے ہیں اب آپ کتنے منافع کے ساتھ بیچتے ہیں یہ آپ کی مرضی اور اہلیت پر منحصر ہے اور جب یہ تینوں بِک جائیں تو منافع کی رقم ملا کر سوٹس میں اضافہ کرتے جائیں باقی آپ کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام میرے دکان کے لڑکوں کے ساتھ ہوگا اسکی فکر نہیں کریں بس خلوصِ نیت اور توکل علی اللہ کے ساتھ کام شروع کریں اور مجھے میرے ٧٥٠ روپے دے دیں
وہ واپس دکان میں گئے اور میں ہکا بکا اپنے “اسٹال” کے پاس کھڑا ہوگیا
خدا خدا کرکے ایک گاہک آیا اور تھوڑی سی لے دے کے بعد ایک سوٹ خرید لیا اسی طرح کچھ دیر میں اچھے خاصے منافع کے ساتھ تینوں سوٹس بیچ کر حاجی صاحب کے پاس گیا اور منافع ملا کر اور سوٹس لے لئے
کچھ عرصے بعد وہ دیوار بچوں کے سوٹس سے بھری ہوئی تھی اور میرا اچھا خاصا کام چل پڑا تھا
٢ سال بعد میرے پاس ایک کام کرنے والا لڑکا بھی تھا اور دکان لینے کے بارے سوچنے لگا
حاجی صاحب سے مشورہ مانگا تو کہنے لگے کہ کل بات کریں گے اس بارے
اگلے دن حاجی صاحب نے مجھے بلایا اور کہنے لگے کہ جیسا آپ کو معلوم ہے میرے دونوں بیٹے دبئی میں سیٹل ہیں اب وہ زور دے رہے ہیں کہ میں بھی اُن کے پاس چلا جاؤں لیکن میں کاروبار کو ایسے کیسے چھوڑتا جب آپ نے کل دکان لینے کی بات کی تو مجھے لگا کہ مجھے بچوں سے مشورہ کرنا چاہیے اسلئے آپ کو کل پہ ٹال کر بچوں سے مشورہ کیا وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ میں دکان بیچ کر ان کے پاس چلا جاؤں اور میری خواہش ہے کہ یہ دکان آپ لے لیں
مگر میرے پاس اتنی ساری رقم نہیں میں کیسے لے سکتا ہوں میں جواباً عرض گزار ہوا
حاجی صاحب نے فرمایا کوئی بات نہیں یہ دکان میں……. کی بیچنا چاہتا ہوں کسی سے بھی آپ قیمت لگوا سکتے ہیں اس کے بعد جس قیمت پر ہم متفق ہوں گے وہ طے کرلیں گے پھر جتنا آپ نقد دے سکیں گے وہ دے دینا باقی ہر مہینے یا سال جو آپ کو مناسب لگے میرے اکاؤنٹ میں جمع کرتے رہئیے یہ سارا کام گواہوں کے سامنے اور اسٹامپ پیپر پر ہوگا
مجھے ان کی بات ٹھیک لگی اور وہ دکان ان سے خرید لی لیڈیز کے سارے سوٹس بیچ کر صرف بچوں کے گارمنٹس رکھ لئے اور آج میں اللہ تعالٰی کے فضل اور حاجی صاحب کی مدد سے اس ساری دکان کا ہولی سولی مالک ہوں قرضہ بھی واپس کرچکا ہوں گھر بھی ادھر ہی لیا ہے سب میرے ساتھ ہیں حاجی صاحب بھی کبھی کبھار آتے ہیں وہ بھی اب میرے سمجھیں گھر ہی کا حصہ ہیں اسلئے جب آپ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتی ہوئی دیکھی تو مجھے میرا ماضی یاد آگیا اور آپ کو آپ کی پسند آپ ہی کی مقرر کردہ قیمت پر دیدی

.مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور دکان سے نکلتے ہوئے اللہ تعالٰی اور اس کے نظام پر ایمان اور پُختہ ہوتا گیا

تحریر: عارف مروت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*