امام حسین کا احترام اور بے رحم جنگجؤوں کی عقل

Spread the love
تحریر: لالہ صحرائی
بابافرید صاحب کے گدی نشیں شیخ ابراہیم جنہیں فریدِ ثانی بھی کہا جاتا ہے، ان کے دور میں بابافرید صاحب کا کلام حاصل کرنے کیلئے گرونانک صاحب دوبار پاکپتن تشریف لے گئے تھے، گرونانک صاحب جس جگہ ٹھہرے وہ جگہ گرونانک صاحب سے ہی منسوب ہے۔
رنجیت سنگھ کا جرنیل ہری سنگھ نلواہ جب پنجاب میں ایکسپیڈیشن کر رہا تھا تو اس نے ملتان کے حاکم کو پیغام بھیجا کہ ہم کہیں بھی لڑیں گے مگر پاکپتن میں نہیں لڑیں گے اور پاکپتن کیلئے نہیں لڑیں گے، تم پاکپتن رکھنا چاہو تو رکھ لو، مجھے بخشنا چاہو تو بخش دو مگر میں اس جگہ پر جنگ کے طوفان بدتمیزی سے گریز کرنا چاہتا ہوں جہاں شیخ فرید ہیں، جہاں میرے گرو کے قدم پاک لگے ہیں، میرے اوپر پاکپتن کے لوگوں کا قتل حرام اور احترام واجب ہے، کسی جنگجو کیلئے ایسے پیچھے ہٹنا موت برابر ہوتا ہے مگر جب دنیاداری سے ایمان مقدم ہو تو رتی برابر مشکل نہیں ہوتی، یہ وہی بندہ ہے جس کے نام سے ہری پور ہزارہ کا شہر آباد ہے۔
بابافرید صاحب حج کے سفر میں بیت المقدس بھی تشریف لے گئے تھے، وہاں ایک سرائے میں معتکف رہے اور بیت المقدس میں جھاڑو بھی دیتے تھے، اس جگہ کو سرائے ہندی کہا جاتا ہے، وہاں باباصاحب جس حجرے میں ٹھہرے تھے وہ سکھوں نے صدیوں سے اپنے قبضے میں لے رکھا ہے، اس جگہ کو حجرہ شیخ فرید کہتے ہیں، وہاں بابا صاحب کی تصویر اور تبرکات بھی رکھے ہوئے ہیں، ایک عام سکھ سے لیکر مشرقی پنجاب کے چیف منسٹر کیپٹن امریندر سنگھ تک وہاں سلام کرنے جاتے ہیں اور ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوتے ہیں۔
مشرقی پنجاب میں ایک جگہ بابا صاحب نے قیام کیا تھا وہاں فریدکوٹ کے نام سے ایک شہر آباد ہے جو اوکاڑہ کے متوازی دکھائی دیتا ہے، اور بٹھنڈہ کے قریب ایک جگہ باباصاحب نے چلہ کیا تھا وہاں درگاہ فریدیہ کے نام سے ایک عالیشان گرودوارہ قائم ہے جہاں بابافرید صاحب کا کلام پڑھا سنا جاتا ہے، میں نے اس گرودوارے کے متولی اور سیواداروں کا انٹرویو سنا تھا، وہ باباجی نام لیتے ہوئے احترام سے سانس بھی اونچا نہیں نکالتے۔
مغلوں کے جدِ امجد امیرتیمور کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے سامنے دریائے ستلج پار کرنے کا واحد رستہ پاکپتن کا تھا، جب اسے پاکپتن کی تاریخ معلوم ہوئی تو اس نے درگاہِ فریدیہ کے احترام میں اپنی فوج کو شہر میں داخل ہونے سے منع کر دیا اور کسی کو بھی نقصان پہنچائے بغیر باہروباہر جانے کا حکم دے دیا۔
یہ وہ لوگ تھے جن کی دنیاداری میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں تھی مگر اہل اللہ کے احترام میں انہوں نے اپنے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ لیں اور رستے کی گرد بھی نہ اڑنے دی۔
تھوڑی دیر کیلئے ہری سنگھ نلواہ اور امیر تیمور لنگ سے موازنہ کرکے دیکھیں کہ دور حاضر کے جو لوگ حرب و ضرب میں ان کے ادنیٰ سپاہیوں کے بھی ہم پلہ نہیں ان مسلمانوں نے کس طرح نواسۂ رسول کے یوم شہادت پر طوفان بدتمیزی مچائے رکھا ہے۔
ان سے تو وہ جنگجو غیرمسلم ہزار گنا بہتر لگتے ہیں جو ایک دوریش کو باطنی علم و گیان کا سرچشمہ جان کر اپنا سر نیہوڑا کر گزر گئے اور یہ کمبخت لوگ اس ہستی کے مقام و مرتبہ کا بھی ادراک نہیں رکھتے جو سرچشمۂ ایمان ہے۔
وہ دن کب آئے گا کہ شہدائے کربلا کے احترام میں دونوں طرف کے لوگ اپنے ایمان کو مقدم رکھتے ہوئے ہری سنگھ نلواہ کی طرح لڑائی سے معذرت اختیار کر جائیں۔
حوالہ:
پنجاب کے اضلاع، پبلک ڈاکومنٹ آرکائیو، لاہور ہائیکورٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*