پاکستان کیلئے معاشی طور پر نئے افق منتظر

Spread the love
نئے افق
تحریرنگار: لالہ صحرائی
دو طرفہ سفارتی و امدادی تعلقات میں امریکہ نے ہمیشہ منافقت کا کردار ادا کیا ہے، یعنی آگے پیچھے دوستی و سٹریٹجک پارٹنرشپ کی باتیں مگر بوقت ضرورت پیٹھ دکھانے میں سب سے آگے اور من مرضی کا فائدہ اٹھانے میں بھی سب سے آگے، بالخصوص جب چاہے انڈیا کو گرما کے اور ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ کے ہمارے جیون کا تماشا لگاتا رہے۔
سعودی عرب نے آڑے وقت میں ہمیشہ کیپیٹل کو سہارا ضرور دیا ہے مگر بدلے میں برابر کی فوجی و سفارتی سپورٹ بھی لی ہے اور کچھ جگہوں پر انویسٹمنٹ کرکے اپنی لابی بھی پیدا کی ہے، اندرونی و بیرونی معاملات میں من مرضی کے فیصلے تو دونوں ہی کراتے رہے ہیں۔
مفادات کے کھیل میں امریکی جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے، اب عربوں کے انڈیا کے ساتھ جو تعلقات بنے ہیں وہ اکانومیکل مفادت کے تحت چل رہے ہیں، اس صورتحال میں عربوں کا سفارتی جھکاؤ بھی ہمیشہ انڈیا کی طرف رہے گا، اگر عربوں کو معاشی مفادات کا حق حاصل ہے تو ہمیں بھی ہے، ہم اپنے لانگ ٹرم معاشی مفادات اور سٹریٹجک مفادات ان دونوں کی احسان پروری کے آگے کیوں بیچ دیں۔
آپشن۔ون:
اگر ہمارا وژن صرف اتنا ہو ایسے لوگوں کو نہیں چھوڑنا چاہئے جو مشکل وقت میں کام آتے رہے ہیں تو ہمارا جھکاؤ سعودی امریکی حاشیہ نشینی جاری رکھنے کی طرف ہونا چاہئے مگر یاد رکھیں امریکن بلاک وہی کرے گا جو کرتا آیا ہے یعنی ہم کسی نہ کسی کھڈے میں اترے رہیں گے اور ہمیشہ اس امداد کے مستحق رہیں گے جو ہوتی آئی ہے، یعنی بوقت ضرورت امریکہ کی پیٹھ اور سعودی عرب کی کیپیٹل ایڈ دیکھتے رہیں گے، مطلب کہ آئندہ دس بیس سال میں بھی کچھ نہیں بدلنے والا، مستقبل بھی ماضی کے ہم پلہ ہوگا، کما کر کھانے کی بجائے اپنے مفادات بیچ کر امداد ہی کھائیں گے اور اندرونی بیرونی مشکلات یونہی بھگتتے رہیں گے۔
ان دونوں کے برعکس چائنہ نے بوقت ضرورت جو سفارتی ایڈ اور کیپیٹل ایڈ دی وہ الگ ہے، اس کا سب سے اہم کردار دفاع کو مسلسل عصری ضرورتوں یعنی خطرات کے ہم پلہ کرنے کیلئے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور اکانومی کو لانگ ٹرم بوسٹ دینے میں بہت نمایاں رہا ہے، اپنے دفاع کو رافیل کے برابر لانے کیلئے بھی ہم اسی کے محتاج ہیں، امریکہ تو ہمیں اس کے سامنے ایف۔سولہ استعمال کرنے نہیں دے گا، لہذا چائنہ کی دوستی کا نعم البدل نہ سعودیہ ہے نہ امریکہ بلکہ اس معاملے میں الٹ ثابت ہوں گے۔
چائنہ کی نوازشات کے بدلے میں ہم نے اسے ٹریڈ ٹریٹی۔ز میں باقی ایکسپورٹرز سے زیادہ سہولیات ضرور دے رکھی ہیں لیکن یہ اتنی بھی زیادہ نہیں ہیں جو دوسرے ممالک میں چائنہ کو حاصل نہ ہوں یا انڈیا نے نہ دے رکھی ہوں، پھر اندرونی و بیرونی فیصلوں میں چائنہ کی مداخلت اور بلیک میلنگ کا اتنا شکار بھی کبھی نہیں ہوئے جتنا باقیوں سے ہوتے ہیں، اگر ایسا کچھ واقع ہوا بھی ہو جیسے حالیہ چین۔بھارت صورتحال میں ہے، اس کا ہمیں بھی خاطرخواہ فائدہ ہی رہا ہے کیونکہ اس خطے میں ہمارے مفادات بالکل ایک جیسے ہیں بلکہ باہمی اشتراک پر مبنی ہیں۔
آپشن۔ٹو:
اگر ہمارا وژن یہ ہونا چاہئے کہ جس طرح امریکہ و عربوں کو حق ہے کہ وہ اپنے معاشی مفادات کے تحت بھارت کو ہمارے اوپر ترجیح دے سکتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے معاشی مفادات کے تحت یہ حق ہے کہ جس سے چاہیں دوستی کریں اور اسے جس پر چاہیں ترجیح دیں۔
اپنے معاشی و سٹریٹجک مفادات کیلئے پاکستان کو دوسروں کی نسبت چین ترکی اور ملائشیا کے زیادہ قریب رہنا چاہئے، اسی میں بھلائی ہے، اور ثابت قدمی کیساتھ ایسے سخت فیصلے لینے میں کوئی نقصان بھی نہ ہوگا کیونکہ معروضی حالات کے تحت اگلی دو دہائیوں تک کوئی ملک کسی کو ایسا نقصان نہیں پہنچا سکے گا جس سے اس کی بقا خطرے میں پڑ جائے، یہ خطرہ امریکہ کے ڈی۔سینٹرالائز ہونے کے بعد پیدا ہوسکتا لیکن اس وقت تک مختلف چھوٹے چھوٹے سٹریٹجک بلاک مضبوط ہو چکے ہوں گے جو اب ترتیب پا رہے ہیں، یہ ایکدوسرے کی بقا کے ضامن بنیں گے، پھر اپنے مفادات پر مشتمل کھرے کھرے فیصلے لینے سے کوئی بھی آپ کیساتھ اتنا ناراض نہیں ہو سکے گا کہ تعلقات ہی ختم کردے، چار چھ دن منہ بسورنے کے بعد اسے حقیقت کو محسوس کرنا ہی پڑے گا کہ ہم کسی کی جاگیر نہیں، آزاد اور خودمختار قوم ہیں جو اپنے مفادات پر خودغرضی کا حق رکھتی ہے۔
معیشت کی کچھ سٹرنگز ایسی ہوتی ہیں جن کا درست فائدہ اٹھایا جائے تو ناقابل یقین ترقی کا ماحول بن جاتا ہے، جو پسماندہ ممالک دیکھتے ہی دیکھتے اٹھے اور پاؤں پر کھڑے ہوئے وہ اسی طرح سے مشکل فیصلے لیکر ہوئے ہیں۔
میرا خیال ہے، کوئی سمجھدار بندہ، جو یقیناً سیاسی نہیں ہے، وہ اس گوشے کو مضبوطی سے پکڑ کے بیٹھا ہوا ہے اور تمام قسم کے معروضی برڈنز جو برسوں سے کندھوں پر سوار ہیں انہیں پورے کے پورے اتارنا چاہتا ہے تاکہ ہم آزاد ہو کر اپنے وسائل کا آزادانہ اور بھرپور استعمال کر سکیں۔
مثلاً عربوں نے جو اربوں ڈالر کے منصوبے بھارت کے ساتھ سائن کئے ہیں وہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتے تھے مگر چونکہ انہیں پتا تھا کہ یہ لوگ کیپیٹل ایڈ سے مطمئن کیا مشکور بلکہ غلام بھی ہو جاتے ہیں تو کام وہاں کرو جہاں فائنانشیل کرنچ نہ ہو اور ان کو صرف جی حضوری کیلئے امداد پر رکھو، یہ ہے پروفیشنل سوچ، آپ جیسے ہی اس سوچ کو جھٹلائیں گے تو ہمارے جسم کے وہ خلیئے جو ان کی انویسٹمنٹ سے پلتے رہے ہیں وہاں شدید خارش شروع ہو جائے گی یہ سوچے بغیر کہ ہم بھی خودغرضی اختیار کریں تو ہمارا فائنانشیل کرنچ بھی ختم ہو سکتا ہے اور بیرونی قرضے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
میری پیش گوئی ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کے بعد جس طرح کا سفر شروع ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، اگلی دہائی میں آپ کو یہاں روسی ریاستوں کے تاجر بھی بکثرت نظر آیا کریں گے اور پاکستان بہت بڑی تجارتی منڈی بنے گا، یہ بات جس بنیاد پر کہی ہے وہ اس ماحول میں سمجھ نہیں آئے گی جس میں ہم خود پیالہ پکڑے پھر رہے ہیں اسلئے تھوڑے لکھے کو زیادہ سمجھیں۔
جن دوستوں کو میرے معاشی تجزیوں کی صحت کا اندازہ ہے وہ انشاءاللہ اس پیش بینی سے بھی مایوس نہیں ہوں گے، جب کبھی آپ روسی تاجر اور صنعتکار یہاں دیکھیں تو ایکبار ضرور لکھ دینا کہ یہ بات لالہ صحرائی نے اتنا عرصہ قبل کہی تھی، میری طرف سے پیشگی شکریہ۔
۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*